آج پھر اُس کا موڈ سخت خراب تھا۔ کپڑے دھوتے ہوئے واشنگ مشین ایک بار پھر خراب ہوگئی تھی۔ اُس نے آفس فون کرکے میاں کو بتایا تو آگے سے بھی ڈانٹ پڑ گئی۔ وہ شاید اپنے آفس کے کسی مسئلے میں اُلجھا بیٹھا تھا۔ اس نے کپڑے سمیٹے اور کچن میں آگئی ۔ بچوں کے سکول سے آنے کا وقت ہورہا تھا اوراُسے ابھی کھانا بنانا تھا۔ سبزی دھونے کے لیے نل کھولا تو پانی ندارد۔ جلدی سے موٹر آن کی کہ پانی بھرجائے۔ ابھی دس منٹ بھی نہ ہوئے تھے کہ لائٹ چلی گئی۔
اب تو وہ بُری طرح سے جھنجھلا گئی۔ "اللہ کیسی زندگی ہے، ہرروز ایک نیا مسئلہ”۔ وہ غصے سے بڑبڑا رہی تھی۔ فون کی بیل ہورہی تھی، اُس نے جا کر اٹھایا تو میاں صاحب تھے۔ اُس نے سارا غصہ اُن پر نکال دیا۔ دونوں کی اچھی خاصی بحث ہوگئی، اور پھر موڈ شام تک خراب ہی رہا۔ یہ ہرروز کا معمول بن گیا تھا۔ اُس کا مزاج دن بدن بگڑتا جارہا تھا۔
آج نیلم کے گھر میلاد تھا، اُسے بھی بلایا گیاتھا۔ نیلم پڑوس میں ہی رہتی تھی۔ اس نے بچوں کے لیے کھانا نکال کر رکھا کہ سکول سے آئیں گے تو مائیکرو ویو میں گرم کرکے کھالیں گے۔ میلاد میں نعت خوانی بھی ہوئی اور ایک معلمہ نے درس بھی دیا۔ جس میں صبروشکر کی اہمیت پر زور دیا گیا تھا۔ جسے سن کر اُس نے سوچا کہ سب کتابی باتیں ہیں۔ میری جیسی زندگی گزارو تو پتہ چلے کہ کتنا مشکل ہوتا ہے کم میں گزارہ کرنا۔
یہ بھی پڑھیں: آمنہ خرم کی تحریر "محرومی”
گھر واپس آئی تو بچے کھانا کھا چکے تھے۔ اُس نے ایئر کولر چلایا اور بچوں کو آرام کی غرض سے لٹادیا۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی، فقیر صدا لگارہا تھا۔ اُس نے کچن سے ایک روٹی پر سالن ڈال کر اسے دے دیا۔ وہ جواباً دعائیں دینے لگا۔ "باجی، اللہ ایسے ہی بہاریں لگائے رکھے”۔
وہ ہنسنے لگی، "بہاریں”۔
پھر طنز سے بولی، ” مشکل سے گزارہ ہورہا ہے باباجی! آپ کو دروازے سے بہاریں دکھ رہی ہیں”۔
فقیر نے جواب دیا، "نہ باجی !ایسے نہیں کہتے، بہاریں ہوتی ہیں تو دروازہ لگایا جاتا ہے”۔
اُس نے دروازہ بند کردیا، مگر فقیر کا جملہ اس کے کانوں پر گونجتا رہا۔ اس نے سر جھٹکا اور کاموں میں مشغول ہوگئی۔
ہرگزرتے دن کے ساتھ وہ اور ناخوش ہوتی جارہی تھی۔ عبادت میں بھی دل نہ لگتا۔ اُس کی کزنز ، حیثیت میں اُس سے کہیں زیادہ تھیں۔ جن سے اپنا مقابلہ کرتے کرتے وہ اور بے چین اور بے زار سی رہنے لگی تھی۔ شوہر سے فرمائشیں کرتی تو مستقبل کے وعدے کرتا ،یا ‘ابھی جیب اجازت نہیں دیتی’ کا ایک ڈائیلاگ دُہرا دیتا۔ اسی وجہ سے شوہر کے ساتھ تعلقات بھی واجبی سے تھے۔ ملنا جلنا بھی بہت مختصر کردیا تھا کہ اس سے بھی کم مائیگی کا احساس شدید ہوجاتاتھا۔
یہ بھی پڑھیں: آمنہ خرم کی تحریر "معافی مانگیے؛ معذرت ضروری ہے”
اُس روز بچوں کی پی ٹی ایم تھی۔ ماشااللہ اچھے نمبرز آئے تھے۔ ٹیچر نے ہمیشہ کی طرح بچوں کی بہت تعریف کی، وہ ان کی کلاس سے نکلی تو زونیرا سے ٹکرا گئی۔ یہ اس کی کالج کی دوست تھی۔ رسمی دعا سلام ہوئی تو زونیرا نے بتایا کہ وہ کافی عرصے سے یہیں پڑھا رہی ہے۔ اُس کی شادی نہ ہوسکی تھی۔ اُس نے زونیرا کو اصرار کیا اور گھر چلنے کے لیے کہا۔ وہ مان گئی کیونکہ اس کا کام مکمل ہوچکا تھا۔ کافی عرصے بعد ملاقات ہوئی تھی، تو خوب گپ شپ لگی۔
"زونیرا شادی کیوں نہ کی تم نے”؟ آخر اس نے دل میں آنے والا سوال پوچھ ہی لیا۔
"بس یار چھوٹی تھی گھر میں تو سب نے ماں باپ میرے سپرد کردیئے۔ خود اپنی زندگیوں میں مصروف ہوگئے۔ اُن دنوں اباجان بیمار تھے۔ سارا وقت ان کی تیمارداری میں نکل گیا۔ پھر ان کی وفات ہوگئی، نہ شادی کے وسائل رہے نہ ہی ذرائع۔ اور اب تو عمر بھی نکل گئی ہے۔ لوگ کم عمر لڑکیاں زیادہ پسند کرتے ہیں۔ تو بس، چل رہا ہے یونہی”۔ اس نے یژمردگی سے جواب دیا۔
اسے بہت افسوس ہوا۔ اس نے پہلی بار محسوس کیا کہ شادی صحیح وقت پر ہونا بھی کتنا ضروری ہے۔
پھر وہ کہنے لگی ” ماشااللہ تمہارے دونوں بچے بہت ذہین ہیں، میں نے انہیں پچھلے سال انگریزی پڑھائی تھی۔ میری بھانجی بھی وہیں زیرتعلیم ہے، مگر وہ پڑھائی میں اتنی اچھی نہیں ہے”۔
اُسے سن کر دلی خوشی ہوئی اور جواب دیا، "اللہ کا کرم ہے یار بس”۔
پھر اسے بٹھا کر وہ کچن میں آگئی اور اسے کھانا کھلانے کے لیے برتن تیار کرنے لگی۔ وہ بھی اٹھ آئی اور آکر بولی، "ماشااللہ ہر سہولت ہے تمہارے گھر میں۔ چھوٹا ہے مگرمیں دیکھ رہی ہوں کہ ہر نعمت ہے اللہ کی”۔ اُس کی بات سن کر وہ دل ہی دل میں شرمندہ سی ہوگئی تھی۔ کچھ دیر دونوں وہیں باتیں کرتی رہیں پھر اس نے ٹیبل پر کھانا لگادیا۔ اسے اِس کے ہاتھ کا ذائقہ بھی بہت اچھا لگا اور کہنے لگی، "یار ہاتھ کا ذائقہ بھی اللہ کی نعمت ہی تو ہے ورنہ یہ چیز پیسوں سے نہیں خریدی جاسکتی”۔ اس کے پاس اب بھی کوئی جواب نہ تھا۔
یہ بھی پڑھیں: آمنہ خرم کی تحریر ” قربانی ۔ ۔ ۔ آمنہ خرم”
کھانے کے بعد دونوں ٹی وی لاؤنج میں ہی بیٹھ گئیں۔ "زونیرا گھر جا کر وقت کیسے گزارتی ہو”؟ اس نے پوچھا۔ زونیرا نے جواب دیا، "امی بیمار ہیں، وہ زیادہ وقت آرام کرتی ہیں، میں تھوڑا بہت کام نبٹا کر تنہا بیٹھی رہتی ہوں، کبھی چھت کو گھورتی رہتی ہوں۔ سوچتی ہوں کہ ماں بھی نہ رہی تو کیا کروں گی”؟
اُس نے ہمدردی سے کہا، "کسی ضرورت مند سے نکاح کرلو”۔
وہ مایوسی سے بولی، "کوئی مخلص انسان ملے تب ناں، سب لالچی ہیں”۔
پھر کہنے لگی، "تم کتنی خوش قسمت ہو، مخلص شوہر ہے جو دن رات تمہارے لیے محنت کرتا ہے۔ اولاد ہے، اپنا گھر ہے اور یہ سب سہولیات، بلاشبہ یہ سب اللہ کی خاص عنایات ہیں، جن کا شکر واجب ہے”۔
اس کی بات سن کر اس نے سر اثبات میں ہلادیا۔ لیکن بہت سی باتوں کا ادراک اور احساس جتنی شدت سے اسے ہوا، وہ بیان سے باہر ہے۔ زونیرا تو شام میں چلی گئی۔ اسے رخصت کرتے ہوئے اس نے دروازہ بند کیا تو اسے فقیر کی صدا سنائی دی۔ "بہاریں ہوتی ہیں تو دروازہ ہوتا ہے”۔ اس کے اندر سکون اُترچکا تھا، دل کا بوجھ کم ہوگیا تھا۔ زونیرا سے ہوئی اس ملاقات نے اس پر ایک مثبت سوچ کا در کھول دیا تھا۔ وہ رب کا شکر ادا کرنے کے لیے جائے نماز کی طرف بڑھ گئی۔
Pingback: "فقط وقت کی تو بات ہے" - دی بلائنڈ سائڈ
Pingback: سچا دوست ۔ ۔ ۔ آمنہ خرم - دی بلائنڈ سائڈ