Live again

اُف یہ جینے کی آرزو!۔۔۔آمنہ خرم

کوئی عورت بھی ہو اور جینے کی خواہش بھی کرے۔ خاص طور پر جب وہ ماں بن جائے تو پھر اسے کیا حق ہے کہ وہ اپنی خوشی کے لیے چند لمحے بھی گزارے۔ اس کو چاہیے کہ اپنے وجود کے ٹکڑے کرکے اپنے اردگرد کے رشتوں اور خاص طور پر اولاد میں بانٹ دے۔ جہاں ضرورت پڑے خود کو قربان کرے۔ اور قربان کرتی ہوئی بغیر شکایت کیے جوانی سے بڑھاپے اور پھر قبرمیں اترجائے۔ چاہے آگے جا کر وہ اللہ کے ہاں بھی جواب دہ ہی کیوں نہ ہوجائے کہ رشتے نبھاتے نبھاتے خالق کو ہی بھلا بیٹھی۔

عورت کے لیے معاشرے نے ایک خود ساختہ ڈکشنری بنا رکھی ہے، جس کے ہر صفحے پر دو ہی معانی بالترتیب درج کردیئے ہیں۔ اور وہ ہیں صبر اور قربانی۔ زمانہ جاہلیت میں دیوی دیوتاؤں کی بھینٹ چڑھنے سے لے کر آج کے پڑھے لکھے معاشرے میں بھی اس سے یہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ تخلیق ہی قربان ہونے کے لیے کی گئی ہے۔

” صبر سے تھپڑ تک ” ۔۔۔ آمنہ خرم

ہمارے گلے میں روایات کا پھندہ اور ماحول میں توقعات کا شکنجہ اس قدر سخت ہے کہ ہم کھل کر سانس لینے سے بھی ڈرتے ہیں۔ نہیں معلوم یہ بندشیں کس نے لگائیں؟ مگر اول تو ہم چاہ بھی نہیں پاتے اور چاہیں بھی تو ان سے جان چھڑا نہیں پاتے۔ حالانکہ بحیثیت مسلم معاشرے کے ہمیں لائحہ عمل اور ضابطہ اخلاق قرآن و حدیث کی صورت میں دے کر بھیجاگیا ہے مگر افسوس ہم اس سے رہنمائی لینا ہی نہیں چاہتے۔ ویسے تو یہ معاملات جن کا میں یہاں ذکر کرنے جارہی ہوں مرد اور عورت دونوں کے لیے بے انتہا مشکل کردیے جاتے ہیں۔ مگر خاص طور پر عورت کے لیے ایک لگی بندھی نارمل روٹین سے ہٹ کر زندگی کا کوئی بڑا حادثہ یا سانحہ اس کی باقی زندگی کو بے معنی بنادیتا ہے۔ اور ایسا صرف ہمارے معاشرتی رویوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔

"دوبارہ” کے نام سے ایک نجی چینل کا ڈرامہ پیش کیا جارہا ہے۔ اور اسے ایک ‘بولڈ ٹاپک’ ڈرامہ کا لیبل دیا گیا ہے۔ اس ڈرامے میں معروف گلوکارہ حدیقہ کیانی ایک ایسی خاتون کا کردار نبھا رہی ہیں جس کی شادی کم عمری میں ایک بڑی عمر کے مرد (نعمان اعجاز) سے کردی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے اس کی تعلیم اور غیرنصابی سرگرمیاں اور دلچسپیاں ادھوری رہ جاتی ہیں۔ باقی کی ساری زندگی اس کو خاوند کے تابع ہوکر گزارنا پڑتی ہے۔ جو اس کی عمر کا خیال کیے بغیر اسے اپنے مزاج کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور کردیتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس شخصیت دب کر رہ جاتی ہے۔

ایک معمہ ہے سمجھنے کا۔۔۔آمنہ خرم

شوہر کی وفات کے بعد اس خاتون کے اندر دبی ہوئی وہ بچی باہر آجاتی ہے، جسے اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی دفنا دیا تھا۔ اور یوں وہ ‘دوبارہ’ زندگی کا آغاز کرتی ہے۔ اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات، رنگ برنگ لباس، ٹینس کھیلنا اور دوست بنانا غرض وہ تمام کام جو وہ شوہر کی وجہ سے نہیں کرپائی، کرنے لگتی ہے۔ پہلے سے زیادہ خوش باش رہنے لگتی ہے۔ اس شادی سے اس کے دوبچے بھی ہیں جو اب جوان ہو کر شادی کی عمر تک پہنچ چکے ہیں۔ بیٹا ماں کی اس تبدیلی کو قبول نہیں کرپاتا۔ اردگرد کے لوگ بھی اسے بیوہ ہونے کے طعنے دینے لگتے ہیں۔ مگر خاوند چونکہ ساری جائیداد اس کے نام کرگیا ہے تو وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتی۔ اسے بار بار تحقیر اور مسترد ہونے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس سے وہ بہت رنجیدہ بھی ہوتی ہے۔

آگے چل کر اس ڈرامے میں یہ بھی دکھایا جارہا ہے کہ اسے ایک نوجوان لڑکے سے محبت بھی ہوجاتی ہے۔ جو اس کا واحد غمگسار اور دوست ہے۔ اور آخر کار سب کے اعتراضات کے باوجود یہ اس سے شادی کرلیتی ہے۔ مگر اس کے اردگرد کے رشتے اسے یہ گنجائش نہیں دے پاتے اور اسے بے وفا بیوی اور بے وفا ماں ہونے کا لقب دیا جاتا ہے۔

اب بظاہر اس طرح کے موضوعات ہمارے اندر ایک عجیب سی بے چینی پیدا کردیتے ہیں۔ ہمارے لیے ایسے سچ قبول کرنا آسان نہیں کہ ایک درمیانی عمر کی خاتون کسی کو پسند کرے اور اپنے بچوں کے فرائض سے ہٹ کر اپنے لیے بھی کچھ سوچے۔ ہماری تربیت کچھ اس انداز سے ہوئی ہے کہ اگر ماں سے اپنے فرائض میں کہیں کوتاہی ہوجائے تو ہم اسے معاف نہیں کرتے۔ حالانکہ اللہ نے عورت کو جس مٹی سے پیدا کیا ہے اس کا خمیر ہی محبت سے اٹھایا گیا ہے۔ وہ فطرتاً احساس مند  اور محبت کے جذبوں سے لبریز ہوتی ہے۔ مگر ہوتی تو ایک انسان ہی ہے نا۔ اور انسان غلطیاں بھی کرتے ہیں ان سے کوتاہیاں بھی ہوتی ہیں۔ وہ اپنی پسند ناپسند بھی رکھتے ہیں۔

خواہشات اور ضروریات بھی۔ اب اگر کوئی ٹھوس جواز نہ ہو جیسے مالی لحاظ سے کفالت کی ضرورت، یا بچوں کی تربیت و حفاظت تو ہم ایک بیوہ خاتون سے یہ ہی توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی خاطر اپنی باقی کی پوری زندگی اس شخص کے نام پر ہی گزار دے جس کی وہ بیوہ ہے۔ ہمارے اردگرد ایسی کئی مثالیں ہیں جن میں خواتین نے جوانی میں ہی یہ سانحہ برداشت کیا اور پوری زندگی تنہا لڑتے لڑتے گزاردی۔ ایسے میں اس ڈرامے کے موضوع کو قبول کرنا ہمارے لیے اتنا آسان نہیں کہ وہ خاتون پھر سے جینا چاہتی ہے۔ اور اپنی پسند سے شادی بھی کرتی ہے جبکہ اسے روپے پیسے کی بھی کمی نہیں۔ نہ ہی معاشرتی لحاظ سے وہ کمزور ہے جسے مرد کے سہارے کی ضرورت ہو۔

ایک معمہ ہے سمجھنے کا۔۔۔آمنہ خرم

اگر غور کریں اور ازسرِنو اپنے خیالات کا جائزہ لیں تو سوچیے بھلا اس میں کیا برائی ہے؟ اور ہمیں ایسا کرنا کیوں غلط لگتا ہے۔ صرف عورت نہیں مرد بھی ایسا کچھ کر گزریں تو انہیں بھی آسانی سے قبولیت کی سند نہیں ملتی۔ لیکن مردوں کے لیے پھر بھی گنجائش اس لیے بن جاتی ہے کہ انہیں شریعت میں اس کی اجازت دی گئی ہے مگرخاتون کے لیے مرضی سے جینے کا حق کو نجانے کیوں منفی معنوں میں  لے لیا جاتا ہے۔ ہم نے اپنی مرضی کی مہذب اور باحیا خاتون تخلیق کررکھی ہے۔ جس کے اندر نہ جذبات ہوتے ہیں، نہ خواہشات اور اگر ہوں تو اسے سرکش کہہ دیا جاتا ہے۔

یہاں میں ان انتہاپسند رویوں کی بات نہیں کررہی جو خواتین کو دوسری تو کیا پہلی شادی پر بھی پسند کی ہونے پر انہیں قتل کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ ان کی تعلیم اور آزادی اور بنیادی حقوق اپنے پیروں تلے روندنے کو غیرت سمجھتے ہیں۔ میں ان پڑھے لکھے باشعور لوگوں کی بات کررہی ہوں جو صرف روایات کی وجہ سے چیزوں کو غلط یا صحیح کا درجہ دے دیتے ہیں۔ اور اپنی سوچ اور خیالات کو استعمال کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔

اللہ تعالیٰ کی ذات نے اسے یہ حق مردوں ہی کی طرح تفویض کیا ہے۔ وہ اپنے فیصلوں میں آزاد ہے۔ ہمارا کام کسی پر انگلی اٹھانا، اس کا احتساب کرنا، اس پر نظر رکھنا اور دخل اندازی کرنا کب سے ہوگیا۔ کس نے ہم پر یہ فرض کردیا ہے کہ دوسرے کی شخصیت کی ٹوہ لی جائے۔ اسے اس کے نقص گن گن کر بتائے جائیں۔ ہرشخص اپنی ذات میں خود خدا بنا بیٹھا ہے اور سامنے سے گزرنے والے ہرانسان پر فتوے صادر کیے جارہا ہے۔

بنت آدم و حوا ۔۔۔ آمنہ خرم

ذرا تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں۔ کیا دنیا کی سب سے پاکباز خاتون کہ جن کا لقب ہی ‘طاہرہ’ تھا،  نے چالیس سال کی عمر میں اپنے سے کم عمر مرد کو اپنے لیے پسند کیا ور بذات خود اپنے لیے رشتے کا پیغام بھجوایا۔ پھر ایسا بھی ایک واقعہ ملتا ہے جس میں ایک خاتون کو اپنے شوہر پسند نہ آئے تو آنحضرتﷺ نے اسے اجازت دی کہ وہ نہ رہنا چاہے تو نکاح ختم کرسکتی ہے۔ خود نبی کریمﷺ نے طلاق یافتہ اور بیوہ خواتین سے نکاح فرمائے اور صحابہ کو بھی اس کی ترغیب دی۔

اب مجھے بتائیے کہ ہم کس کی پیروی کرتے ہوئے یہاں تک پہنچ گئے ہیں۔ کہ ایک جائز اور حلال کام کو بلاوجہ تنقید کرتے ہیں اور کرنے والے کو باکردار نہیں سمجھتے۔ کیا ہمیں اپنے روئیوں میں اصلاح کی ضرورت نہیں۔ ایک تو خاتون کو بھی انسان سمجھیئے اور اس کے مددگار بنیے۔ اس پر ذمہ داریوں کا بوجھ ضرور ڈالیے مگر غلطی کی گنجائش بھی دیجیئے۔ دوسرا اس کو پورا حق ہے کہ ماں، بہن، بیٹی ہوتے ہوئے اپنی ذات کو نکھارنے کے لیے جو ضروری ہو کرسکے۔ اسے پنپنے کا موقع دیں۔

یہاں یہ بھی گزارش کروں گی کہ اگر زندگی کے حوادث اس کی زندگی کو روک دیں تو آگے بڑھنے میں اس کی مدد کریں۔ اس پر قدغن نہ لگائیے۔ اسے جواز کی کسوٹی پر پرکھنے کے بجائے اگر زندگی اسے دوبارہ جینے کا موقع دیتی ہے تو اس میں اس کا حوصلہ بڑھائیے۔ کیونکہ زندگی اسے بھی آپ کی طرح صرف ایک ہی بار ملی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے