بھارت: خواتین کی شادی کی کم از کم عمر بڑھانے کی تجویز منظور

شادی کی کم از کم عمر 18 سے 21 سال ہو جائے گی

بھارت کی حکومت نے خواتین کی شادی کی کم از کم عمر 18 سے 21 سال کرنے کی تجویز کی منظوری دے دی ہے۔ اب خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں کو تشویش ہے کہ یہ قدم "زبردست تباہی” کا پیش خیمہ ہوگا۔

ملک میں اس وقت مردوں کے لیے شادی کی کم از کم عمر 21 اور خواتین کے لیے 18 سال ہے۔

کابینہ کی منظوری کے بعد اب حکومت کم عمری کی شادی پر پابندی کے قانون 2006ء میں متوقع طور پر ایک ترمیم پیش کرے گی۔ نتیجتاً شادیوں کے قانون اور عائلی قوانین میں بھی تبدیلیاں آئیں گی۔

یہ بھی پڑھیں: ایکسپو 2020ء میں کم عمری کی جبری شادیوں اور بچیوں کی تعلیم پر مذاکرہ

گزشتہ سال اگست میں یومِ آزادی پر تقریر کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے اس تجویز کا ذکر کیا تھا اور کہا تھا کہ "حکومت بہنوں اور بیٹیوں کی صحت کے حوالے سے خدشات رکھتی ہے۔ انہیں ناکافی غذائیت سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی شادیاں درست عمر میں ہوں۔”

رواں سال کے اوائل میں شمالی ریاست ہریانہ میں سینکڑوں لڑکیوں نے وزیر اعظم مودی کو خط لکھا تھا، جس میں ان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ شادی کے لیے کم از کم 18 سال سے بڑھا کر 21 سال کر دیں۔ اس ریاست میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کی آبادی کی شرح بھارت میں سب سے کم ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شادی کی کم از کم عمر 21 سال کی جائے، بھارتی لڑکیوں کا مطالبہ

وزیر خزانہ نرملا سیتارامن نے بھی گزشتہ سال فروری میں بجٹ تقریر کے دوران کہا تھا کہ یہ فیصلہ بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ بہتر تعلیم اور روزگار کے لیے خواتین کے لیے مواقع میسر ہونا ضروری ہے۔ یہ فیصلہ زچگی کے دوران اموات کو گھٹانے کے ساتھ ساتھ ناکافی غذائیت کے مسئلے کے خاتمے میں بھی اہمیت رکھتا ہے۔

صحت، قانون اور ترقی نسواں اور اطفال کی وزارتوں کے حکام کی حامل ایک اعلیٰ سطحی ٹاسک فورس نے بھی اس تجویز کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ پہلے حمل پر خاتون کی عمر کم از کم 21 سال ہونی چاہیے۔

اقوام متحدہ کی 2017ء کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کم عمری کی شادیوں کے خاتمے اور ماؤں کی صحت کو بہتر بنانے میں مشکلات کا سامنا کر رہا ہے اور۔ رپورٹ کا کہنا ہے کہ 27 فیصد تک بھارتی لڑکیوں کی شادیاں 18 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہو جاتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایران، کم عمری کی شادیوں میں اضافے کا رجحان

نئی دلّی میں واقع سینٹر فار سوشل ریسرچ کی ڈائریکٹر رنجنا کماری کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کے فیصلے کا خیر مقدم کرتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ شادی کے موقع پر شادی کی کم از کم عمر مرد اور عورت دونوں کے لیے یکساں ہونی چاہیے۔

"اب یہ حکومت اور سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کی ذہنیت بدلنے کے لیے کام شروع کریں کیونکہ محض قانون بنا دینے سے اس میں تبدیلی نہیں آنے والی۔ ہمیں یقینی بنانا ہوگا کہ لڑکیاں اپنی تعلیم مکمل کریں، اگر وہ کام کرنا چاہتی ہیں تو انہیں روزگار کے مواقع میسر ہوں۔”

البتہ حقوقِ نسواں کے لیے آواز اٹھانے والی شخصیات اور کارکنوں نے اس قدم کو خواتین کے لیے "تباہ کن” قرار دیا ہے۔

معروف کارکن فلاویا ایگنس کہتی ہیں کہ اگر 21 سال سے پہلے ہونے والی تمام شادیوں کو ناجائز قرار دیا گیا تویہ تباہ کن ہوگا۔ اب بھی لڑکیوں کی شادیاں 18 سال کی عمر سے پہلے ہو جاتی ہیں۔ وہ 13، 14 اور 15 سال کی عمر میں حاملہ ہو جاتی ہیں۔ اب آپ شادی کی کم از کم عمر کو 21 سال کر رہے ہیں، یہ تو تباہی کو آواز دینے کے مترادف ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کرونا وائرس اور بچپن کی شادیوں میں اضافہ

ایگنس نے کہا کہ دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی شادی کم عمری میں ہو جاتی ہے۔ "والدین ریپ یا گھر سے بھاگ جانے کے خطرے سے بچنے کے لیے انہیں گھر پر نہیں رکھنا چاہتے۔”

البتہ رنجنا کماری نے کہا کہ یہ "انتہا پسند فیمنسٹ” ابتدا ہی سے خواتین کی شادی کی عمر بڑھانے کی مخالفت کر رہی ہیں۔

"میرا نہیں خیال کہ اس سے کوئی نقصان ہوگا، یہ تو ایک موقع ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کی بھرپور مہم چلانے اور شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرہ اسے قبول کرے۔ یہ کم عمری کی شادی کے خاتمے کا بہترین طریقہ ہے۔”

ایک اور کارکن اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی سیاست دان کویتا کرشن بھی سمجھتی ہیں کہ کابینہ کا یہ فصلہ "بہت غلط” اور "مسائل کا سبب” ہوگا۔

"یہ قدم بنیادی طور پر خواتین کے اختیارات پر قابو پانے کا ایک اور طریقہ ہے۔ یہاں تو خواتین کے اپنی مرضی سے شادی کرنے کے حق پر ویسے ہی حملے ہو رہے ہیں اور اب اس میں مزید رکاوٹیں آئیں گی کیونکہ اب تو قانونی پابندی ہوگی۔”

انہوں نے کہا کہ نو عمر خواتین کے اختیارات اب بھارت میں سب سے زیادہ حملے کی زد میں ہیں۔ "میرا ماننا ہے کہ شادی کی کم از کم عمر مرد کے لیے بھی 18 سال ہونی چاہیے۔ اگر آپ 18 سال کی عمر میں ووٹ دے سکتے ہیں اور بالغ سمجھےجاتے ہیں تو آپ کو بالغوں والے تمام حقوق بھی ملنے چاہئیں۔”

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے