بیوی کی خوبیوں کی تعریف ضرور کریں

پذیرائی۔۔۔آمنہ خرم

کیا ہوجائے اگر شوہر بیوی کی خوبیوں کا اعتراف کرلے، اس کے چھوٹے چھوٹے کیے ہوئے عمل کی پذیرائی کردے، اس سے محبت کا اعتراف کرلے۔ کچھ نہیں ہوجائے گا اگر کسی تہوار پہ اس کے لیے تحفہ نہ لاسکے تو اس کے پہناوے کی تعریف کردے۔

میں اسے دیکھتے ہی پہچان گئی، وہ اِدھر سے اُدھر بلامقصد گھوم رہی تھی۔ کبھی ایک شاپ سے دوسری میں، کبھی مال کے کوریڈور میں صرف ٹہلتے ہوئے جیسے وقت گزار رہی ہو۔ پھر فوڈ کورٹ کی طرف بڑھی تو میں نے سوچا اب بات کرہی لوں ،کافی عرصہ بعد دیکھا تھا تو میں بھی ہچکچا رہی تھی۔ پاس جا کر سلام کیا تو وہ پہلے ہونق سی مجھے دیکھنےلگی پھر ایک دم سے ہوش میں آکر بولی "ارے تم، واہ یار تم تو کافی بدل گئی ہو۔ یونیورسٹی میں تو بالکل سادہ سی لگتی تھی اور اب سٹائلش ہوگئی ہو”۔

میں ہنس دی۔ حال احوال کے بعد میں نے اس سے پوچھا کہ تم یہاں سے وہاں ٹہل رہی تھی کیا کسی کا انتظار کررہی تھی۔ وہ جیسے خلاؤں میں گھورنے لگی پھر بولی "انتظار، پتہ نہیں”۔ مجھے کچھ تعجب ہوا کیونکہ وہ ایک خوش مزاج چلبلی لڑکی تھی لیکن آج جس سے میں مل رہی تھی وہ تو ایسے تھی جیسے کہیں کھو گئی ہو اور اپنے آپ کو تلاش کررہی تھی۔ وہ بات ٹال گئی مگر پھر میرے استفسار پر بولی "تھک گئی ہوں اکیلے خوشیاں مناتے، خود سے باتیں کرکرکے، اپنے صحیح غلط فیصلوں پر خود کو خودی سرزنش کرتے، بے زار ہوگئی ہوں”۔

اب مجھے تعجب ہوا کہ وہ ایک ویل آف، پڑھے لکھے، خوشحال گھرانے سے تھی، شادی شدہ زندگی گزار رہی تھی۔ اولاد نہ سہی مگر بے انتہا نیک، وفادار شوہر کا ساتھ تھا اور کبھی اولاد نہ ہونے کی کمی کا احساس تک نہ تھا اسے۔ پھر آخر کیا وجہ تھی جو اس طرح زندگی سے بے زار رویہ ہوگیا تھا اس کا۔

"یار! بھائی تو ٹھیک ہیں ناں۔ کہیں باہر واہر تو نہیں چلے گئے۔ تنہا کیوں بھئی؟ اتنا اچھا شوہر کا ساتھ ہے”۔

یہ سننا تھا کہ وہ پھٹ پڑی؛

"اچھے نہیں، بہت ہی اچھے، اتنے اچھے کہ کسی چیز میں مداخلت نہیں کرتے، ایک لفظ نہیں کہتے۔ اچھا کھانا پکا لوں تو تعریف نہیں کرتے، بس کھانا وقت پہ مل جائے۔  کوئی چیز پہن لوں تو نہ پسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں نہ ناراضگی کا جیسے کوئی دلچسپی ہی نہ ہو۔ گھر کے لیے کیا خریدوں، مہنگا لوں، سستا لوں، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پیسہ ، تہوار ہر شے جیسے بے معنی ہے، کسی چیز میں کوئی مداخلت نہیں”۔

شوہرکوبیوی کی خوبیوں کی تعریف کرنا چاہیے

پھر ہنسی،  اب اس کے لہجے میں طنز بھی تھا اور بے چارگی بھی؛

"جیسے میرے ہونے نہ ہونے سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔  گھر کی خاموشی ڈستی ہے تو پھر باہر ہجوم میں آجاتی ہوں دل بہلانے کے لیے۔ ایسا اس لیے نہیں کہ میری اولاد نہیں، مجھے شوہر کی خاموش عادت اور کم گوئی اور کسی بات پہ پذیرائی  نہ کرنے کا روگ لگ گیا ہے”۔

پھر رسمی الوداعی کلمات کے بعد وہ اٹھ کر چلی گئی۔ میں کافی دیر وہیں بیٹھی یہ سوچتی رہی کہ بظاہر ہمارے چھوٹے چھوٹے کئے ہوئے عمل کسی کے لیے سوہانِ روح بن جاتے ہیں۔ اِک ذرا سی بات نے ایک لڑکی کو سر تا پیر بدل کر رکھ دیا۔ کیا ہوجائے اگر شوہر بیوی کی خوبیوں کا اعتراف کرلے۔ اس کے چھوٹے چھوٹے کیے ہوئے عمل کی پذیرائی کردے۔ اس سے محبت کا اعتراف کرلے۔ کچھ نہیں ہوجائے گا اگر کسی تہوار پہ اس کے لیے تحفہ نہ لاسکے تو اس کے پہناوے کی تعریف کردے۔ اس کی خامیوں کا احساس نہ دلانا اچھا ہے مگر خوبیوں کو پس پشت ڈالنا کیوں ضروری ہے۔ گھر کے چھوٹے موٹے کاموں میں مدد نہ کیجئے (اگرچہ یہ بھی سنت ہے)۔ مگر اس کی صفائی ستھرائی، اہتمام، گھر کے سنوارنے کی تعریف ضرور کیجئے۔ تاکہ اسے معلوم ہو کہ آپ اس کے ہر عمل کو نوٹس کرتے ہیں۔ اسے مناسب پر موقع پر مشورے دیں۔

یقین کیجئے کہ نہ صرف زندگی آسان اور خوبصورت ہوجائے گی بلکہ بیوی آپ کی محبت کے گُن گاتی رہے گی۔ لفظوں اور جذبوں کے اظہار میں بخیل مت بنیے۔ اپنے پارٹنر کو چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے محروم مت کیجئے۔ جو کمی اللہ کی طرف سے ہے اس پہ صبر آجاتا ہے مگر روئیوں سے پیدا ہوئے خلا بہت تکلیف دیتے ہیں۔ کم گوئی اچھی عادت ہے مگر خدارا ہر جگہ نہیں۔ اپنے شریک حیات کو اپنے ہونے کا احساس دلائیے۔ اس کی پذیرائی کیجئے۔ یہ چھوٹی چھوٹی سی کاوشیں آپ کے گھر کو جنت بنادیں گی۔

One Ping

  1. Pingback: معافی مانگیئے؛ معذرت ضروری ہے ۔۔۔ آمنہ خرم - دی بلائنڈ سائڈ

2 Comments

  1. Muhammad Usman Reply

    بہت اہم پوائنٹ ہائی لائٹ کیا ہے اور بہت اچھے سے وضاحت کی گئی ہے۔ شاید ایسی ہی صورتحال کے بارے میں کہا جاتا ہے "خاموش بدمعاشی”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے