بیشک دلوں کا سکون اللہ کی یاد میں ہی ہے!

سویرا اپنے شوہر اور دو بچوں کے ساتھ ہسپتال سے گھر پہنچی ۔آج اس کے کچھ  ٹیسٹ ہوئے تھے ، جو اس کی دوست ڈاکٹر سعدیہ نے اس کی روز بروز بگڑتی ہوئی حالت کع دیکھ کر ڈاکٹر نے کرانے کا کہا تھا۔ گھر پہنچتے ہی سویرا کو کمزوری محسوس ہو رہی تھی اور وہ بستر پر لیٹ گئی ۔کچھ دن سے اس کا یہی معمول تھا , نقاہت محسوس ہوتی اور وہ بستر سے لگ جاتی۔اپنی اس حالت سے وہ خود بھی بہت پریشان تھی۔اس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ موبائل پر گیم کھیلتے اور دنیا کے بےکار کاموں میں ضائع کر دیا تھا ۔ اب اسے احساس ہونے لگا تھا کہ واقعی

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے

لیکن ماں تھی فطرت سے مجبور , ہر وقت اسے اپنے بچوں, شوہر اور گھر کی فکر لگی رہتی۔ہر ماں کی طرح وہ بھی اپنے بچوں سے بہت پیار کرتی تھی۔ روز بروز اس کو یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ اس کچھ ہو گیا تو اس کے بچوں کا کیا ہو گا,کجا کہ وہ سوچتی کہ اس کا کیا ہو گا, وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو کیا منہ دکھانے گی۔ٹیسٹ کی رپورٹ بھی ٹھیک نہیں آئی تھی ۔انہی سوچوں میں گم تھی کہ اس کا چھوٹا بیٹا جو اس کی بیماری سے پریشان تھا,کمرے میں داخل ہوا اور معصومیت سے کہنے لگا, ماما: جب آپ ایسے ایسے چلتی ہیں, مجھ سے کھیلتی ہیں, مجھے ڈانٹتی ہیں تو مجھے بہت اچھی لگتی ہیں۔یہ سن کر تو جیسے اس کا دل تڑپ اٹھا اور بیٹے کو پچکارتے ہوئے کہنے لگی میا بچہ میں تو یونہی لیٹی ہوئی ہوں ۔ نہ جانے کہاں سے اس میں ہمت آگئی اور وہ بستر سے اٹھی کپڑے تبدیل کیے اور وضو کر کے اللہ کے آگے سجدہ ریز ہو گئی اور رو رو کر اللہ سے دعا مانگنے لگی ؛ اے اللہ مجھے ہمت دے , صحت دے کہ میں اپنے بچوں کی صحیح دیکھ بھال کر سکوں, اپنے شوہر کی خدمت کر سکوں۔کتنی عجیب بات ہے نہ عورت اپنے لیے تو سوچتی ہی نہیں, اپنے بچوں اور گھر کے لیے جینا چاہتی ہے۔اللہ تعالی جو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے , پہلے ہی اپنے بندے/بندی کا شدت سے منتظر ہوتا ہے, خود فرماتا ہے مجھ سے مانگ کر تو دیکھو دینے کی حد نہ کر دوں تو کہنا, میری طرف جھولی پھیلا کر تو دیکھو خوشیوں سے دامن نہ بھر دوں تو کہنا۔اللہ کوشاید اس کا تڑپ کر رونا پسند آ گیا اور اس کی دعا قبول ہو گئی ۔
اس کی طبیعت میں سدھار آنے لگا۔اس نے موبائل کا استعمال بہت کم کر دیا ۔وہ جو پہلے ہر وقت موبائل پر گیم کھیلتی رہتی تھی اب نماز کی پابند ہو گئی ۔
کچھ ہی دنوں میں سب گھر والوں کو وہ تندرست نظر آنے لگی۔
1 مہینے کی دوائی لینےکے بعد دوبارہ ڈاکٹر کو دکھانا تھا اور کچھ ٹیسٹ کروانے تھے , جب رپورٹس آئیں اور ڈاکٹر نے دیکھیں تو وہ بھی حیران رہ گئی کہ اس کی توقع سے زیادہ بہتری آئی تھی۔
اب سویرا کی روٹین بدل گئی تھی, جب بھی پریشان ہوتی تو اللہ سے بات کرتی , اللہ سے بات کر کے بہت سکون محسوس کرتی۔
الا بذكر الله تطمئن القلوب. (سورة الرعد.28

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے