ملالئی میٹرنٹی ہسپتال افغان دارالحکومت کابل کے مصروف ترین ہسپتالوں میں سے ایک ہے کہ جہاں ہر روز تقریباً 85 بچے پیدا ہوتے ہیں، جن میں سے 20 بذریعہ آپریشن اِس دنیا میں آتے ہیں۔ لیکن ملک میں جاری بحرانی صورت حال نے ہسپتال کے عملے کی مریضوں کی دیکھ بھال کی صلاحیت کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔
ہسپتال کی ہیڈ مڈ وائف شہلا اورزغنی کہتی ہیں کہ آلات، ساز و سامان اور ادویات کی قلت، ایندھن اور دیگر سہولیات کی کمی کے علاوہ پارٹنرز کی جانب سے امداد کی غیر یقینی صورت حال ہمیں درپیش چند بڑے مسائل ہیں۔
ادھر احمد شاہ بابا ہسپتال میں بھی کہ جہاں ڈاکٹر عقیلہ بہرامی کام کرتی ہیں، صورت حال زیادہ مختلف نہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمیں ایک بین الاقوامی این جی او کی جانب سے مستقل سپورٹ ملتی تھی، لیکن اگست میں پیش آنے والے واقعات کے بعد ان کا عملہ یہاں سے جا چکا ہے۔ اب ہمیں میڈیکل سپلائیز کی سخت ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں بحران، پاکستان اور برطانیہ کا اجتماعی اقدامات اٹھانے کا مطالبہ
یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (UNFPA) نے افغانستان میں ہنگامی طور پر تولیدی صحت کے لیے طبّی ساز و سامان سب سے پہلے ان دو ہسپتالوں کو فراہم کیا ہے۔ اس میں ایسی ادویات اور ساز و سامان موجود ہے جو محفوظ وضعِ حمل کو یقینی بنانے اور ماں اور بچے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ضروری ہیں، جو کم از کم 3,28,000 افراد کے لیے کافی ہیں۔
کابل اور 15 دیگر صوبوں میں ایسی 300 سے زیادہ میڈیکل کٹس ہسپتالوں اور موبائل ہیلتھ ٹیموں کے ذریعے فراہم کی جا رہی ہیں، جبکہ آئندہ ہفتوں میں اس کام کو مزید بڑھانے کا منصوبہ بھی ہے۔
اگست میں امریکی و اتحادی افواج کے انخلا اور طالبان کی واپسی کے بعد سے ملالئی ہسپتال کی ضروریات بڑھتی جا رہی ہیں، کیونکہ ارد گرد کے صوبوں کے کئی بے گھر افراد بھی دارالحکومت میں آ بسے ہیں۔ گو کہ اب ہسپتال آنے والے مریضوں کی تعداد معمول پر آ چکی ہیں لیکن یہاں موجود ادویات اور دیگر سہولیات کی قلت ضرور بڑھ گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جنگ زدہ علاقوں میں خواتین کی صحت کے لیے 835 ملین ڈالرز کی ضرورت
شہلا کو خدشہ ہے کہ یہ صورت حال مزید خراب ہو سکتی ہے اور خدشہ ہے کہ صحت عامہ کا پورا نظام ہی ڈھیر ہو جائے۔ ابتدائی اندازے خبردار کرتے ہیں کہ موجودہ ہنگامی صورت حال اور خواتین کو تولیدی صحت کی خدمات کی معطلی سے 58,000 اضافی اموات ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ 51 لاکھ غیر ارادی حمل ٹھیر سکتے ہیں اور تقریباً اگلے چار سالوں میں خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات نہ پانے والے افراد کی تعداد میں دو گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔
ایک ایسے ملک میں کہ جہاں ہر دو گھنٹے میں ایک خاتون حمل کی پیچیدگیوں کی وجہ سے جان دے دیتی ہے، ان میڈیکل کٹس کی فراہمی بہت اہم ہے۔ شہلا کہتی ہیں کہ ہسپتال کے وسائل تیزی سے کم ہو رہے ہیں اور ہمیں جو امداد ملتی ہے وہ بھی کمی بیشی کی شکار ہے۔ اس وقت بھی ہمیں ہمیں بالکل یقین نہیں کہ اگلی امداد کب اور کتنی ملے گی۔
یہ بھی پڑھیں: افغان خواتین کی مدد کی جائے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے
افغانستان میں گزشتہ 20 سال کے دوران صحت کی سہولیات کو بہتر بنانے میں کی جانے والی سرمایہ کاری نے صورت حال کو کافی بہتر بنایا تھا اور حمل کے دوران جان دینے والے ماؤں کی تعداد 2000ء میں ہر ایک لاکھ میں 1,450 سے تقریباً آدھی ہو کر 638 ہو گئی تھیں۔
گو کہ یہ بھی دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں زیادہ شرح ہے، لیکن موجودہ بحرانی حالات میں اس شرح کو مزید گھٹانے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا بلکہ خدشہ ہے کہ دہائیوں کی کوششیں ضائع ہو سکتی ہیں اور 40 لاکھ سے زیادہ خواتین کی زندگیاں اب خطرے کی زد میں ہیں۔
اقوام متحدہ نے تمام تر مشکل حالات کے باوجود اکتوبر میں 97,000 سے زیادہ افراد کو جنسی و تولیدی صحت کی خدمات فراہم کیں، جن میں قبل از ولادت دیکھ بھال، محفوظ وضعِ حمل اور خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات شامل ہیں۔
جواب دیں