آخر بھارت میں ہر سال ہزاروں گھریلو خواتین خود کشیاں کیوں کرتی ہیں؟
سرکاری نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے حال ہی میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال 22,372 گھریلو خواتین نے اپنی جان خود لی جو ایک دن میں 61 بلکہ ہر 25 منٹ میں ایک خود کشی بنتی ہے۔
سال 2020ء میں بھارت میں ریکارڈ کی گئی 1,53,02 خود کشیوں میں سے 14.6 فیصد خود کشیاں گھریلو خواتین نے کیں اور اگر کُل خواتین میں ان کا تناسب دیکھا جائے تو 50 فیصد سے زیادہ بنتا ہے۔
یہ قومی ادارہ 1997ء سے خود کشی کے حوالے سے یہ اعداد و شمار اکٹھے کر رہا ہے اور تقریباً ہر سال ہی 20,000 سے زیادہ گھریلو خواتین کی خود کشیاں ریکارڈ ہوئی ہیں۔ 2009ء میں تو یہ تعداد 25 ہزار سے بھی تجاوز کر گئی تھی۔
خبروں میں عموماً ایسی خود کشیوں کی وجہ "گھریلو ناچاقی” یا "شادی شدہ زندگی کے مسائل” کو قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن کیا واقعی ہزاروں خواتین محض اس لیے اپنی جان کے درپے ہو گئی ہیں؟
یہ بھی پڑھیں: آخر اقدامِ خود کشی اب تک جرم کیوں؟
ذہنی صحت کے ماہرین کہتے ہیں کہ گھریلو تشدد اس کی بڑی وجہ ہے۔ حالیہ سرکاری سروے میں 30 فیصد خواتین نے بتایا کہ انہیں اپنے شوہر کے ہاتھوں تشدد کا سامنا رہتا ہے جبکہ روز روز کی مشقت الگ جس سے شادی شدہ زندگی کشیدہ رہتی ہے اور ایسے گھرانوں میں ماحول گھٹن زدہ ہے۔
بنارس میں ماہر نفسیات ڈاکٹر اوشا ورما شری واستو کہتی ہیں کہ خواتین میں برداشت کا مادّہ بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن اس کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ زیادہ تر لڑکیوں کی شادی جلد ہی ہو جاتی ہیں، عموماً شادی کی قانونی عمر 18 سال تک پہنچتے ہی۔ یوں وہ ایک بیوی اور بہو بن جاتی ہے اور اس پورا دن گھر میں کھانے پکانے، صفائی ستھرائی اور دیگر کاموں میں گزرتی ہے۔ اس پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں، اسے بہت کم آزادی دی جاتی ہے اور شاید ہی کہیں اسے اپنے پیسوں پر کوئی اختیار ملتا ہے۔ اس کی تعلیم اور اس کے خواب کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ بالآخر اس کی خواہشات دم توڑنے لگتی ہیں اور مایوسی اسے گھیر لیتی ہے اور محض زندہ رہنا بھی اذیت بن جاتا ہے۔
زیادہ عمر کی خواتین میں حود کشی کی وجوہات مختلف ہیں۔ ڈاکٹر ورما کہتی ہیں کہ کئی خواتین کو بچوں کے بڑے ہو جانے، گھر چھوڑ جانے اور سنِ یاس کے بعد ذہنی تناؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ ایسی خود کشیوں سے با آسانی بچا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی خواتین خود سوزی اور اقدامِ خود کشی کیوں کر رہی ہیں؟
یہی وجہ ہے کہ ماہر نفسیات سمترا پتھارے کہتے ہیں کہ بھارت میں ہونے والی کئی خود کشی ہیجان میں آ کر کی جاتی ہیں۔ مرد گھر آتا ہے، بیوی کو مارتا پیٹتا ہے اور وہ خود کشی کر لیتی ہے۔ آزاد تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ بھارت میں خود کشی کرنے والی ایک تہائی خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ لیکن گھریلو تشدد کا نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے اعداد و شمار میں کوئی ذکر نہیں۔
بنگلور سے چلائی جانے والی ذہنی صحت کی ایپ Wysa چلانے والی ماہر نفسیات چیتالی سنہا کہتی ہیں کہ گھریلو تشدد کا سامنا کرنے والی بہت سی خواتین اپنے اعصاب پر قابو رکھتی ہیں صرف اس لیے کہ انہیں غیر رسمی مدد ملتی ہے۔
ماضی میں ممبئی کے ایک سرکاری نفسیاتی ہسپتال میں تین سال تک کام کرنے والی چیتالی اقدامِ خود کشی کرنے والی خواتین کو مشاورت دیتی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے دیکھا کہ خواتین مقامی ٹرین میں سفر کے دوران یا سبزیاں خریدتے ہوئے پڑوسنوں کے ساتھ چھوٹے سپورٹ گروپ بنا لیتی ہیں۔
"انہیں اظہار کا کوئی مقام نہیں مل رہا اور بسا اوقات ان کی ذہنی صحت کا انحصار بات چیت پر ہے جو وہ کسی شخص سے کرتی ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کی وبا اور نتیجتاً لگنے والے لاک ڈاؤن نے صورت حال کو مزید بگاڑ دیا ہے۔
دنیا میں سب سے زیادہ خود کشیاں بھارت میں ہوتی ہیں: بھارتی مرد دنیا میں ہونے والی کُل خود کشیاں کا ایک چوتھائی ہے جبکہ خواتین 15 سے 39 سال کی عمر کے دوران ہونے والی خود کشیوں کا 36 فیصد ہیں۔
لیکن ڈاکٹر پتھارے کہتے ہیں کہ بھارت کے سرکاری اعداد و شمار حقیقت سے کہیں کم ہیں اور اس مسئلے کی اصل شدت کو ظاہر نہیں کر رہے۔
یہ بھی پڑھیں: کووِڈ سے شوہر کی موت، پڑوسیوں سے تنگ خاتون نے بچے سمیت خود کشی کر لی
انہوں نے کہا کہ ملین ڈیتھ اسٹڈی اور لانسیٹ کی تحقیق دیکھیں تو بھارت میں خود کشیوں کی سرکاری تعداد 30 سے 100 فیصد تک کم لگتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے باوجود بھارت میں اس بارے میں بات نہیں کی جاتی۔ خود کشی کے ساتھ بدنامی کا داغ لگا ہوا ہے اور لوگ اسے چھپاتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں کہ جہاں پوسٹ مارٹم تک نہیں ہوتا اور مراعات یافتہ طبقہ پولیس پر اثر رکھتا ہے ایسی خود کشیوں کو حادثاتی موت قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلی ترجیح اعداد و شمار کو معیاری سطح پر پہنچانا اور بہتر بنانا ہونی چاہیے۔
"اقوام متحدہ کا ہدف 2030ء تک عالمی سطح پر خود کشیوں کی شرح میں 30 فیصد کمی لانا ہے، لیکن پچھلے سال ان میں کمی کے بجائے الٹا 10 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یعنی یہ ہدف اب محض ایک خواب لگتا ہے۔”
جواب دیں