افغانستان میں بحران، پاکستان اور برطانیہ کا اجتماعی اقدامات اٹھانے کا مطالبہ

ملک کو قحط کی صورت حال کا سامنا، معاشی زوال سے عوام تباہی کے دہانے پر

پاکستان اور برطانیہ نے افغانستان میں قحط کی صورت حال اور معاشی زوال کو روکنے کے لیے فوری انسانی امداد کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔

اسلام آباد میں ایک بین الاقوامی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے برطانیہ کے سفیر کرسچن ٹرنر نے کہا کہ

"ایک مستحکم افغانستان ہم سب کا مشترکہ ہدف ہے۔ ہم اس حوالے سے طالبان سے بات کر رہے ہیں، جس میں دہشت گردی کے خاتمے، اقلیتوں کے حقوق، خواتین کے حقوق اور لڑکیوں کو اسکولوں میں تعلیم کی اجازت جیسے معاملات مرکزی اہمیت رکھتے ہیں۔”

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سیمینار کو بتایا کہ طالبان حکومت نے افغانستان کے تمام پڑوسیوں اور دیگر عالمی طاقتوں کو یقین دلایا ہے کہ وہ کسی کو اپنی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ

"ہم نے افغانستان میں تمام نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ساتھ خواتین کے حقوق کا بھی احترام کرتے ہوئے حکومت کا ایک جامع نظامِ قائم کرنے کے لیے کام کیا ہے۔”

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان رواں ہفتے اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے ایک اجلاس کی میزبانی کرے گا تاکہ افغانستان کے لاکھوں عوام کے لیے خوراک، ادویات اور تعمیرات کے لیے مدد کی جا سکے۔ طالبان اور امریکا، روس، چین، برطانیہ، فرانس، اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے نمائندوں کو بھی اتوار کو طے شدہ 57 رکنی اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے "غیر معمولی اجلاس” میں مدعو کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغان خواتین کی مدد کی جائے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے

اگست میں امریکی و اتحادی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں طالبان نے ایک مرتبہ پھر اقتدار حاصل کر لیا تھا۔ جس کے بعد امریکا اور دیگر ممالک نے افغانستان کی مالی امداد معطل کر دی تھی اور اس کے اثاثے تک منجمد کر دیے تھے کہ جو زیادہ تر امریکی فیڈرل ریزرو میں ہیں۔

امداد اور مالی اثاثوں کا یوں اچانک معطل ہو جانا افغان معیشت کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہوا ہے، جو گزشتہ 20 سالوں سے زیادہ تر غیر ملکی امداد پر ہی منحصر تھی اور اب تو تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ پابندیوں کی وجہ سے بنیادی سطح کی خدمات مثلاً بجلی، صحت و تعلیم کی خدمات، اشیائے خورد و نوش، ایندھن اور بنیادی ضرورت کی دیگر اشیا کی نہ صرف فراہمی اور ترسیل متاثر ہوئی ہے بلکہ ان کی قیمتیں بھی آسمان کو چھو رہی ہیں اور عام افغانوں کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔

افغانستان میں بینکنگ سسٹم بھی جزوی طور پر ہی کام کر رہا ہے اور بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے باقی دنیا سے کٹا ہوا ہے۔ واضح رہے کہ اب تک کسی ملک نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: خواتین کی جبری شادیوں پر پابندی لیکن تعلیم و روزگار بدستور معطل

سابق امریکی سفیر رابن رافیل نے بھی سیمینار سے خطاب کیا اور کہا کہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی نظریں غیر محفوظ افغانوں کے انخلا پر لگی ہوئی ہیں اور وہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کو کوئی ہلکا سا اشارہ بھی نہیں دے رہے۔ لیکن ساتھ ساتھ لاکھوں افغانوں کو بچانا بھی اس کی ترجیح ہے۔

"یورپی یونین اور چند یورپی حکومتیں ایسے طالبان رہنماؤں کے ساتھ براہِ راست بات چیت کرنے کے لیے کابل میں دفاتر کھولنے پر غور کر رہی ہیں جن کے نام دہشت گردوں کی فہرست میں نہیں ہیں۔ میری نظر میں امریکا بھی ایسا کرنے پر غور کرے گا۔”

گزشتہ ہفتے امریکی وزارتِ خزانہ نے افغانوں کو ذاتی اور غیر ذاتی نوعیت کے ترسیلاتِ زر (remittances) بھیجنے کی اجازت دی ہے جبکہ عطیہ کنندگان (donors) نے عالمی بینک کے زیر انتظام افغان ری کنسٹرکشن ٹرسٹ فنڈ (ARTF) سے 280 ملین ڈالرز منتقل کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (UNICEF) کو صحت کی خدمات کے لیے 100 ملین ڈالرز ملیں گے جبکہ باقی ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) کو جائیں گے تاکہ وہ 27 لاکھ افراد کو امداد فراہم کر سکے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کا اندازہ ہے کہ افغانستان میں غذائی عدم تحفظ سے دوچار افراد کی تعداد 2.28 کروڑ تک ہے، جو ملک کی کُل آبادی کا نصف سے زیادہ بنتا ہے۔

افغانستان میں WFP کی ڈائریکٹر میری ایلن میک گرورٹی نے گزشتہ ہفتے کابل میں بتایا تھا کہ تقریباً 87 لاکھ افغان "قحط جیسی صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں” اور تقریباً 95 فیصد گھرانے ایسے ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر کافی خوراک حاصل نہیں کر پا رہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ 30 سال کا بد ترین قحط، معاشی تباہ حالی، ملکی نظام درہم برہم ہونے، سالہا سال کی کشیدگی سے پیدا ہونے والے حالات، یہ سب ایک ساتھ اثر انداز ہو رہے ہیں۔ یوں بھوک اور تباہی کا ایک سونامی جنم لے رہا ہے۔ رواں سال 31 لاکھ افغان بچوں میں کم خوراکی کی تشخیص ہوئی ہے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے