‘ تڑاخ ‘ اور میرب کا سر زور سے بیڈ سے جا ٹکرایا۔ اس کے گال پر بیڈ کا کنارہ لگا اور ہلکا سا خون بھی نکل آیا۔ وہ سُن سی ہوکر وہیں گرگئی۔ اسے سمجھ نہیں آئی کہ یہ اس کے ساتھ کیا ہوا۔ ‘یہ مجھے فراز نے تھپڑ مارا ہے،مجھے’۔ وہ خلاؤں میں گھوررہی تھی کہ اسے فراز کی چیختی ہوئی آواز سنائی دی۔ ‘کب سے پوچھ رہا ہوں۔ اتنی اہم فائل ہے میری۔ محترمہ کے پاس ٹائم ہی نہیں کہ اٹھ کر ڈھونڈ ہی دیں’۔ وہ گال پر ہاتھ رکھے رکھے بے یقینی سے سراٹھا کر اسے دیکھے گئی۔ ‘فراز نے مجھے تھپڑ مارا، ہاتھ اٹھایا مجھ پر۔ یہ میرے ساتھ کیا ہوا’؟
‘میں ایم اے پاس، والدین کی سب سے سمجھدار بیٹی، ابو کی لاڈلی، سب سے ذہین، گھر کی بڑی بیٹی، نہ جانے میرے پڑھائے ہوئے کتنے طالب علم اہم عہدوں پر فائز ہیں، لوگ اپنے گھر کے مسئلوں پر مجھ سے مدد لیتے ہیں۔ گھر کے چھوٹے بڑے فیصلے میرے بغیر ہو نہیں سکتے۔ سسرال میں چھوٹا بڑا میری رائے کا احترام کرتا ہے۔ سوشل ویلفیئر کی وجہ سے لوگ عزت دیتے ہیں۔ مالی کفالت میں فرازسے زیادہ حصہ ڈالتی ہوں۔ بچوں کی تعلیم کا بوجھ اٹھا رکھا ہے۔ ہمراز، غمگساربیوی، یااللہ یہ میرے ساتھ کیا ہوا’؟
صرف فراز کی ایک فائل نہ ملنے پر اس نے ایک پل میں مجھے بے آبرو کردیا۔ میں اپنے آپ سے کیسے نظریں ملاؤں۔ اس سلوک کے لیےاپنے آپ کو کیا دلیل دوں۔ یہ تھپڑ تھا یا پتھر تھا جس نے میری ذات کو چکنا چور کردیا۔ مجھے بے وقعت کردیا، مجھے ہوا میں تحلیل کردیا۔ عرش سے فرش پے دے مارا مجھے۔ وہ اپنے آپ سے نظریں ہی نہیں ملا پارہی تھی۔ آنکھ سے آنسو رواں تھے۔ گال سے خون رِس رہا تھا۔ دل چھلنی ہوگیا تھا اور وجود یکلخت ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا تھا۔
ایک تھپڑ، ایک طمانچہ صرف عورت کے چہرے کو داغدار نہیں کرتا بلکہ ماں کی سالہا سال کی تربیت کو داغدارکردیتا ہے۔ یہ ایسا تشدد ہے جو بظاہر بہت زخمی نہ بھی کرے لیکن عورت کی نفسیات پر ایک کاری ضرب لگادیتا ہے۔ اگر کسی بچے پر کوئی ہاتھ اٹھائے تو وہ ساری زندگی اسے بھلا نہیں پاتا۔ تو ایک باہوش وحواس، جیتی جاگتی، حساس اور ذہین عورت اسے کس طرح ہضم کرسکتی ہے۔ رشتوں کو مفلوج کردینے والا یہ عمل وہی سرانجام دیتے ہیں جو ذہنی طور پر معذور ہوتے ہیں۔ عورت کی تذلیل کا سرٹیفیکیٹ لے کر ایسے مرد اپنے رشتے کو خود ہی کھوکھلا کردیتے ہیں۔ اس کی کوئی دلیل نہیں۔ اس کی کسی مذہب میں اجازت نہیں۔ یہ انسانی حقوق کی بہت بڑی خلاف ورزی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
بنت آدم و حوا ۔۔۔ آمنہ خرم
جس عورت کے ساتھ ایسا ہو گزرے تو وہ کسی کے ساتھ اس کا اظہار بھی نہیں کرتی، کیونکہ اسے اس میں اپنی تذلیل کا احساس ہوتا ہے۔ نہ جانے کتنی ‘میرب’، ‘شائستہ’، ‘عظمیٰ’ روزانہ ایسے تھپڑ کھاتی ہیں۔ اور پھر خود کو بھی نہیں بتاتیں کہ ان کے ساتھ یہ ظلم ہوچکا ہے۔ وہ نفسیاتی طور پر ہی ایک کیفیت میں چلی جاتی ہیں۔ جس سے باہر آنے کے بعد بھی انہیں بہت سی دوسری باتیں جکڑلیتی ہیں۔ اور وہ اسے اپنا نصیب سمجھ کر قبول کرلیتی ہیں۔ عورت پڑھی لکھی نہ بھی ہو، باشعور نہ بھی ہو تو حساس پھر بھی ہوتی ہے۔ اسے تو تذلیلی فقرے مضطرب کیے رکھتے ہیں۔ باتوں کے چُبھتے ہوئے نشتر کئی راتیں سونے نہیں دیتے۔ تو کجا چہرے پر پڑا ہوا طمانچہ، ایک بار کا اٹھایا ہوا یہ ہاتھ جو اس کی روح کے اندر سے گزرتا ہوا نکل جاتا ہے۔
آج کل ایک نجی ٹی وی ڈرامے کا ایک سین بہت زیربحث ہے۔ ڈرامہ ‘لاپتہ’ میں فلک (سارہ خان) کو اس کا شوہر دانیال (گوہررشید) شک کی بنیاد پر ایک طمانچہ رسید کردیتا ہے۔ فلک کا کردار ایک بہت پڑھی لکھی باوقار خاتون کا ہے جو بیڈمنٹن چیمپئن بھی ہے۔ جب اسے یہ طمانچہ پڑتا ہے تو وہ پلٹ کر اپنے شوہر کو تھپڑ مارتی ہے۔ اور اسے تنبیہ کرتی ہے کہ آئندہ اس پر ہاتھ اٹھانے کی جرات بھی نہ کرے۔ اس سین کے متعلق بہت سی ملی جلی رائے سامنے آرہی ہے۔ بہت سے لوگ اس سین کی داد دے رہے ہیں تو کچھ اس پر تنقید کرتے بھی نظر آرہے ہیں۔
پیپلزپارٹی کی رہنما شرمیلا فاروقی نے بھی اس پر تبصرہ کیا کہ تشدد کسی بھی عورت کی مرضی نہیں بلکہ مجبوری سے ہوتا ہے۔ اور ہرکسی کے پاس اتنا اختیار نہیں ہوتا کہ وہ جواب دے یا چھوڑ دے۔ اسی طرح ایکٹر گوہر رشید نے کہا کہ انہوں نے ڈرامہ اسی سین کی وجہ سے قبول کیا تھا کیونکہ وہ عورت کو مضبوط کرنے کے حامی ہیں۔
یہ ایک بہت سلگتا ہوا موضوع ہے۔ عورت کے حقوق کی جب بھی آواز اٹھائی جاتی ہے توہمیشہ اسے غلط رنگ دینا بھی درست نہیں۔ ہم مختلف چینلز پر بیسیوں ایسے ڈرامے دیکھتے ہیں جس میں عورت کو پستےہوئے، ظلم سہتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ توان میں چند ایک ایسے ڈرامے ہوتے ہیں جس میں باہمت اور مقابلہ کرنے والی نڈر عورت دکھائی جاتی ہے۔ میرے نزدیک سارہ خان (فلک) کا اپنے تشدد کے خلاف آواز اٹھانا اور ایکشن لینا ایک پیغام ہے۔ ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے کہ اب حالات بدل رہے ہیں۔ عورت مضبوط ہورہی ہے۔ بلکہ ہے، بس ذہنی طور پر اگر اس کی تربیت کی جائے تو وہ کبھی بھی ظلم نہیں سہے گی۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا اب کی عورت، اب پہلے سے زیادہ اپنے حقوق سے آگاہ ہے۔ اور وہ دب کر اپنی زندگی گزارنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
خواتین کو با اختیار بنانے کے عمل کو تبدیلی اور نئے حل کی ضرورت
ٹی وی ایک ایسا میڈیم ہے جو ہر اس طبقہ میں بھی دیکھا جاتا ہے جو عام تعلیم سے بھی محروم ہیں۔ اور لوگوں کی ذہن سازی کے لیے بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ لہذا اصلاحی کہانیاں لکھنے کی ضرورت ہے۔ روتی، دھوتی خواتین کی جگہ باہمت خواتین کی کہانیوں کو زیادہ جگہ ملنی چاہیے تاکہ مردوں کی اصلاح کی جاسکے کہ عورت کے حقوق کی بات کرنے کا مطلب مردوں کے خلاف محاذ نہیں ہے۔ بلکہ اس طبقہ کی نشاندہی ہے جو ابھی تک ان بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ یہ درست ہے کہ پاکستان میں خواتین کے حالات اتنے بھی دگرگوں نہیں مگر یہ بھی سچ کہ اس پر مزید بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ درست ہے کہ عورت کا مرد کو تھپڑ رسید کرنا درست نہیں لیکن یہ بھی یاد رکھیے مرد کا عورت کو پیٹنا بھی کسی طور درست نہیں۔ میں اس بات کی حامی نہیں کہ عورت مرد پر ہاتھ اٹھائے۔ لیکن اگر مرد ایسی قبیح غلطی کرے تو اسے پورا اختیار ہے کہ وہ بھی خود کا دفاع کرے اور اسے تنبیہ کرے کہ وہ اس کا ظلم برداشت نہیں کرے گی۔
اس ڈرامے میں اس سین کو فلمبند کرنے کا مقصد بھی شاید عورت کے ساتھ یک جہتی کا اظہار ہے۔ یہ اس بات کا عکاس ہے کہ عورت نے مظلومیت کا لبادہ اتار پھینکا ہے۔ رب کائنات نے اسے بھی حواس خمسہ کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ آزاد پیدا کیا ہے۔ بااختیار بنایا ہے۔ تو اسے ذہنی غلام بنانے کی کوشش اب ترک کرنا ہوگی۔ ویسے بھی عورت پر ذہنی یا جسمانی تشدد نہ تو ہمارا علاقائی کلچر ہے اور نہ ہی ہمارا پیارا مذہب اسلام ہمیں اس کی ترویج دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
"کچھ علاج اس کا بھی”۔۔۔آمنہ خرم
مہذب معاشرے، اچھی سوچ، مثبت روئیوں اور برداشت سے پنپتے ہیں۔ اگر عورت مرد کی خامیوں کو برداشت کرتی ہیں تو مرد کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ اپنی مایوسیوں، ناکامیوں کا غصہ گھروالوں یا خاص کر گھرکی خواتین پر نہیں نکال سکتا ہے۔ اور اگر پھر بھی کوئی رہنمائی دستیاب نہ ہو تو اپنے نبی کریمﷺ کی حیات مبارکہ سے کوئی ایک ہی واقعہ لے آئیے جس میں تشدد تو دور کی بات، آپﷺ نے کبھی بلند آواز سے زوجہ کو مخاطب کیا ہو۔
مرد کو برتری اس کی ذمہ داریوں کی وجہ سے عطا کی گئی ہے۔ عورت پر حکمرانی کرنے کے لیے نہیں۔ اور جو ذمہ داریاں عطا کی گئی ہیں، ان پر باز پرس بھی ہوگی۔ تو اختیارات کا ناجائز استعمال مت کیجیئے۔ بہترین انسان وہی ہے جو اختیارات کا درست استعمال کرتا ہے۔ عورت اپنے حقوق لے کر پیدا ہوئی ہے، بس بحیثیت اس کے والی اس کے حقوق کا تحفظ کیجیئے۔
Pingback: اُف یہ جینے کی آرزو!۔۔۔آمنہ خرم - دی بلائنڈ سائڈ