کیا آپ کی زندگی میں کوئی ایک ایسا دوست ہے جسے آپ کے بارے میں سب معلوم ہو؟ آپ کی ہر اچھائی، برائی، ہرخوبی، ہر خامی، آپ کا ہر سچ اور ہر جھوٹ۔ آپ کی سب نیکیاں اور سب گناہ اور ان سب کے باوجود بھی وہ آپ سے بے حد و حساب، بے پناہ محبت کرتا ہو؟ سوچئے اور سوچ کر اپنے آپ سے پوچھیئے۔ ہمارے اندر کچھ ایسی باتیں، عادات یا خامیاں ہوسکتی ہیں جو کہ صرف ہم جانتے ہیں۔ اور نہیں چاہتے کہ وہ کسی کے سامنے عیاں ہوں۔ لیکن کوئی ایک ایسا دوست جو وہ بھی جانتا ہو اور پھر بھی آپ سے بے حد محبت کرتا ہو۔ یہاں تک کہ اگر آپ اس کی کوئی بات ماننے سے انکار بھی کردیں تب بھی وہ آپ کی عیب پوشی کرے۔ آپ کو شرمندہ نہ کرے، آپ کے زخموں پر مرہم رکھے۔ آپ کے نفع و نقصان سے آپ کو آگاہ کرتا رہے اور اگر آپ اس سے دور ہوجائیں تو آپ کے لوٹ کے آنے کا ایسے انتظار کرے جیسے کسی کا کوئی جانور صحرا میں کھو جائے اور وہ بے قراری سے اس کے لوٹ کے آنے کا انتظار کرے۔
یہ بھی پڑھیں: دروازہ۔۔۔آمنہ خرم
کیا ایسے پکے سچے دوست کو آپ چھوڑنا چاہیں گے؟ یقیناً نہیں، اگر آپ کے پاس ایسا دوست ہو تو آپ ہر قیمت پر اس کی دوستی کو محبوب رکھیں گے۔ لیکن ہم سب تو نامکمل ہیں، ادھورے ہیں۔ غلطیوں اور خطاؤں سے لتھڑے ہوئے ہیں۔ دن رات گناہوں میں دھنسے ہوئے ہیں۔ ہم میں سے ہر کوئی اپنے دامن میں بہت کچھ چھپائے ہوئے ہے اورنہیں چاہتا کہ وہ کسی پہ عیاں ہوں۔ مجھے یقین ہے ایسی لازوال محبت صرف میرا رب ہی کرتا ہے۔ اُسی کی محبت ہے جس سے سب محبتیں وجود میں آئی ہیں۔ جس دن آپ کو اس بات کا یقین آجائے گا، آپ کی زندگی میں سکون اتر جائے گا۔ مایوسی اور ڈپریشن کی اصل وجہ اللہ کے ساتھ کمزور تعلق ہے۔
یہ بھی پڑھیں: "فقط وقت کی تو بات ہے”
اگر آپ عبادات میں کوتاہی نہیں کرتے، تمام فرائض بخوبی پورے کرتے ہیں۔ اس کے باوجود سکون قلب نہیں تو ایک نظر اپنے کردار پر ڈالیے۔ جائزہ لیجیئے کہ آپ کہاں غلطیاں کررہے ہیں جس کی وجہ سے آپ کا دل آلودہ ہورہا ہے۔ کیونکہ یہ ہمارے گناہ ہی ہیں جو دل کو آلودہ کرتے ہیں۔ اور اس میں سب سے بڑی غلطی ‘جھوٹ’ ہے۔ جی ہاں اسے معمولی مت سمجھیئے۔ یہی تو جڑ ہے سب برائیوں کی، وہ حدیث مبارکہ تو یاد ہوگی اور وہ واقعہ بھی جس میں نبی کریم ﷺ نے جھوٹ کو سب برائیوں کی جڑ کہا، اسے سب سے پہلے ترک کرنے کو ایمان کی پہلی بنیاد بتایا۔ اب آپ تو سوچیں گے، نہیں بھئی، ہم تو جھوٹ نہیں بولتے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہم تو اپنے آپ سے بھی سچ نہیں بولتے۔ وائٹ لائز کو مصلحتی جھوٹ کہہ کر بس سچ کا نام دینا باقی رہ گیا ہے۔ سکول سے چھٹی پر بچوں کو جھوٹے حیلے بہانے سکھانا ہوں، آفس میں دن رات فون پر کسی کو ٹرخانا ہو یا منانا ہو۔ گاڑی میں جاتے ہوئے "بس یہ قریب ہی ہوں” (چاہے کتنے ہی دور ہوں) یا پھر کہیں موجود ہو کر موجودگی سے انکار ہو۔ دوست ادھار نہ لے لے تو روپے پیسے ہوتے ہوئے بھی بہانے گھڑ دینا جیسے معاملات کو جھوٹ کی فہرست سے ہم کب کا نکال چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آمنہ خرم کی تحریر "محرومی”
ابھی بڑے معاملات جیسے چیز بیچتے ہوئے نقص چھپانا، ملاوٹ، خوشامد کا تو ذکر پھر کبھی کرلیں گے۔ آپ یہی سوچتے ہیں نا یہ تو معمولی بات ہے۔ لیکن یاد رکھیے رائی سے پہاڑ بنتا ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے معمولی جھوٹ بھی آپ کے نامہ اعمال کو بھاری کررہے ہیں اور آپ کے قلب کو زنگ لگا رہے ہیں۔ جو شخص جھوٹ آسانی سے بول لیتا ہے تو اس کے لیے لین دین میں کمی و بیشی بھی آسان ہوجاتی ہے۔ رشتوں کے ساتھ بے ایمانی معمولی شغل بن جاتا ہے۔ وعدہ خلافی کو بھی وہ اپنی مجبوری بنا لیتا ہے۔ یہ اور نہ جانے اور کتنے اخلاقی روگ اس کے قلب کو داغدار کرتے جاتے ہیں۔ اور جب قلب داغدار ہوتا جاتا ہے۔ دل سے روشنی ختم اور اندھیرا بڑھتا جاتا ہے۔ اندھیرا آپ کو مایوسی اور ڈپریشن کی طرف دھکیلتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آمنہ خرم کی تحریر "معافی مانگیے؛ معذرت ضروری ہے”
لیکن قربان جائیے، اس ذات پاک کے جس نے آپ کو اس سب سے نکلنے کا کتنا آسان راستہ بھی بتا رکھا ہے۔ بس اس ذات کے سپرد کردیجیئے اپنے آپ کو۔ مان لیجیئے کہ وہ ہی سچا دوست اور کوئی نہیں، اور نہ ہی کوئی ہوسکتا ہے۔ جو آپ کو آپ سے بھی زیادہ پہچانتا ہے۔ اپنی تخلیق سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ آپ کے گناہوں کی طویل فہرست کے باوجود بھی ہر لمحے آپ کی توبہ کا انتظار کرتا ہے۔ مان لیجیئے کہ وہ رحمٰن آپ پر رحم کرتا ہے کہ آپ کے عیب چھپا رکھتا ہے، آپ کے جھوٹوں پر شرمندہ نہیں کرتا بلکہ دوستی نبھاتا رہتا ہے۔
اپنے قلب کی صفائی کیجیئے۔ ہر اچھا اور مثبت قدم اس کا زنگ اتارنے میں ہماری مدد کرتا ہے، جیسے جیسے گناہوں کا غبار چھٹتا ہے اس کی جگہ سچائی اور پاکیزگی کی روشنی لے لیتی ہے۔ اور یاد رکھیئے روشنی اندھیرے کی ضد ہے۔ یہ آپ کو مایوسیوں سے نکال کر زندگی کی طرف لے جاتی ہے۔ جیسے جیسے قلب کی صفائی ہوتی ہے آپ کا اپنے رب سے رشتہ مضبوط ہوتا جاتا ہے۔ اور جسے رب کی دوستی مل جاتی ہے، اسے اور کیا چاہیے ہوتا ہے۔ وہ دائمی سکون ہمارے دین اور دنیا کو مکمل کردیتا ہے۔ اپنے ہونے کی سمجھ آجاتی ہے۔ دنیا کی آزمائشیں مشکل نہیں لگتیں پھر۔ اور یہ بھی یقین مل جاتا ہے کہ مجھ سے اتنی محبت کرنے والی ہستی میرے لیے بہترین کا انتخاب کرے گی۔
Pingback: سانحہ مینار پاکستان - دی بلائنڈ سائڈ