"رضا میری ہر ضرورت پوری کرتا ہے۔ خرچ میں بھی کوئی کمی نہیں کرتا لیکن مصروف بہت ہے۔ اس کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ میرے پاس بیٹھ سکے۔ بس کمرے کے دروازے سے ہی سلام دعا کرتا ہے۔ حال چال بھی کھڑے کھڑے پوچھ لیتا ہے اور کام پہ چلا جاتا ہے۔ باپ کے پاس وقت گزارنے کے لیے چند لمحے بھی نہیں اس کے پاس”۔ مسجد میں بیٹھے ایک بزرگ اپنے دوست کو اپنے دل کی کیفیت بیان کررہے تھے۔
"مما دیکھیں نا، میں نے کتنی جلدی پزل مکمل کرلیا۔ اور کسی سے مدد بھی نہیں لی۔ آپ موبائل بعد میں دیکھ لینا، پہلے میری بات سنیں۔ مما صبح بھی آپ نے مجھے ناشتہ خود نہیں کروایا، مجھے سلانے بھی نہیں آتیں آپ۔ میں آپ سے خفا ہوجاؤں گا پھر”۔ چھوٹا سا انس اپنی مصروف ماں سے ہمیشہ کی طرح شکوہ کررہا تھا۔
"سعد بھائی آپ کا کبھی دل نہیں چاہتا مجھ سے بات کرنے کے لیے۔ مہینوں گزر جاتے ہیں اور آپ کال نہیں کرتے۔ کسی عید پر بھی آپ مجھے یاد نہیں کرتے۔ پچھلے سال میں اتنی بیمار رہی ہوں، مگر آپ نے میرا حال دریافت کرنے کی زحمت تک نہ کی۔ یاد کیجیئے کیسے بچپن سے جوانی میں، میں آپ کی بیسٹ فرینڈ ہوا کرتی تھی۔ میرے بغیر آپ کھانا بھی نہیں کھاتے تھے۔ سالگرہ پر سب سے پہلے آپ تحفہ لاتے تھے۔ جو قیمت میں کم مگر خلوص اور محبت سے بھاری ہوتا تھا۔ آج بھی عید کے دوسرے دن فرط جذبات سے مجھ سےرہا نہیں گیا۔ اور دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر میں نے آپ کو کال کرلی۔ آپ اپنی زندگی میں اتنے مگن ہوگئے ہیں بھائی کہ آپ کو اپنی بہن یاد ہی نہیں رہی”۔ دوسرے شہر سے اپنے بھائی سے فون پر بات کرتے ہوئے نمرہ جذباتی ہوگئی تھی۔ شکوہ کرتے کرتے اس کے گال آنسوؤں سے تر تھے۔
یہ بھی پڑھیں: دروازہ۔۔۔آمنہ خرم
"پرویز بیٹا کیسے ہو؟ جب تک آپ کی والدہ زندہ تھیں۔ انہوں نے کبھی مجھے اپنوں کی دوری کا احساس تک نہیں ہونے دیا۔ مگر ان کی وفات کے بعد تو آپ لوگوں نے پڑوسیوں سے ملنا جلنا ہی چھوڑ دیا۔ کیا اب میرے ہاتھ کے پکوان اچھے نہیں لگتے آپ کو؟ کبھی کبھی بوڑھی خالہ کو بھی وقت دے دیا کرو”۔ نصرت خالہ پڑوسی تھیں مگر ہر دکھ درد میں اپنوں کی طرح ساتھ رہیں تھیں۔ آج پرویز کو آفس جاتے دیکھ کر بڑے رسان سے شکوہ کررہی تھیں۔
"یار میری ہرچیز وقت پر مجھے مل جاتی ہے، گھر بھی صاف ستھرا ہوتا ہے۔ میری پسند کا کھانا بھی۔ مگر ہر آئے دن دوستوں کے ساتھ ‘گیٹ ٹوگیدر’ کبھی شاپنگ اور یہ سب نہ ہو تو سارا دن انہی سے فون پر چٹ چیٹ۔ آفس سے گھر جاکر بھی اُس کے ساتھ بات کرنے کو ترس رہا ہوتا ہوں۔ پتہ نہیں وہ اس بات کو کیوں نہیں سمجھتی کہ مجھے اس سے دو گھڑی، کچھ پیار کے بول بھی چاہیے ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ مشین بن گئے ہیں ہم دونوں بس”۔ علی مایوسی سے ہمایوں کو بتا رہا تھا۔
یہ اور ایسی بہت سی دوسری کہانیاں ہمارے اردگرد روز بازگشت کررہی ہوتی ہیں۔ غور کیجیئے کہ رشتوں کو ہم سے کیا چاہیے ہوتا ہے۔ ہمارے رشتے ہماری بے ساختہ اور خود ساختہ مصروفیات کی وجہ سے بہت متاثر ہورہے ہیں۔ جس کے لیے ہم دن رات مصروف رہتے ہیں، کام کرکر کے ہلکان ہوجاتے ہیں۔ پیسہ خرچ کرنے میں بھی دریغ نہیں کرتے اور وہی رشتے سب سے زیادہ ہمارے دور ہونے سے تکلیف میں آجاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آمنہ خرم کی تحریر "محرومی”
اللہ تعالیٰ ہمیں دن رات رزق سے نوازتا ہے۔ اور رزق صرف روٹی کپڑا اور پھل نہیں بلکہ ہمارے رشتے، دوست، محبتیں، خلوص، سب رزق میں شامل ہیں۔ اس رزق پر صرف ہمارا حق نہیں ہوتا بلکہ ہمارے پیارے، بھائی، بہن، پڑوسی، قریبی رشتے سب اسی زمرے میں آتے ہیں۔ اشفاق احمد کی بات یاد آگئی کہ ہم نے کسی پہ اپنے پلے سے خرچ نہیں کرنا ہوتا بلکہ اللہ کے دیے ہوئے رزق میں سے دینا ہوتا ہے۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ میری پھوپھو جب کچھ خاص پکاتیں تھیں تو کچن گھر کے گیٹ کے قریب ہونے کی وجہ سے خوشبو محلے میں پھیل جاتی اور پھوپھوزاد بھائیوں کے محلے کے یار دوست قطار میں بیٹھ جاتے گھر کے باہر اور پھر آلو کے پراٹھے ہوتے، پکوڑے ہوتے، چپس فرائی ہوتے سب کو ملتا۔ پھوپھو مسکراتے ہوئے سب کو برابر دیے چلی جاتیں۔
یہ بھی پڑھیں: آمنہ خرم کی تحریر "معافی مانگیے؛ معذرت ضروری ہے”
بچپن میں نانی دادی کے گھر جاتے تو یہی دیکھا کہ کوئی آجاتا تو ‘بسم اللہ، بسم اللہ’ کہتے ان کی زبان نہیں تھکتی تھی۔ آج ہمارے دسترخوانوں پہ ہر نعمت موجود ہے مگر دل میں گنجائش ہی نہیں۔ کچھ اچھا پک جائے تو سوچتے ہیں کہ کوئی آ نہ جائے۔ یہاں تک کہ عیدوں پر کسی کو اپنے ہاں بلانے کا رواج بھی دم توڑ گیا ہے۔ اور چار وناچار اگر کسی کے آنے پر کچھ کرنا پڑجائے تو احسان عظیم کی طرح کیا جاتا ہے۔
ہم اپنی روایات بھولتے جارہے ہیں اور جب ہم ہی بھول رہے ہیں تو بچوں کو کیا سکھائیں گے۔ کیونکہ جو محلہ داریاں، رشتوں سے وفاداریاں، خلوص، چاہتیں، والدین کا ادب احترام اور والہانہ لگاؤ، ماؤں کی پُرشفقت گودیں، ہم نے دیکھیں ہیں ۔نئی نسل تو اس کے تصور سے بھی بے بہرہ ہے۔
ہمارے اپنے رشتے ہمارے لوٹ آنے کے منتظر ہیں۔ ان کو تروتازہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری پرانی مگر بہت سی پیاری پیاری روایات کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یقین کیجیئے اس میں زیادہ محنت بھی درکار نہیں ہوگی۔ نہ روپیہ پیسہ۔ صرف وقت درکار ہے۔
آپ کے رشتوں کو قیمتی تحائف سے وہ خوشی نہیں ملتی جو آپ کے وقت دینے سے ملتی ہے۔ آج بھی محلے میں سلام دعا کرکے حال احوال پوچھ لینا اتنا ہی پسند کیا جاتا ہے۔ بھائی کے گھر آجانے پر سسرال میں بیٹھی بہن اُسی طرح کھل جاتی ہے۔ بوڑھے باپ پہ اچانک جوانی لوٹ آتی ہے، اگر بیٹا دو گھڑی بیٹھ کر ہنس کھیل لے تو۔ اور پورے گھر میں بچے چہچہاتے پھرتے ہیں جب ماں باپ ان سے لاڈ کرتے ہیں۔ آج بھی خاوند دفتر سے تھکا آئے تو اس کے ہاتھ سے آفس بیگ لیتے ہوئے مسکرا کر اس کا حال پوچھنے سے اسے اتنی ہی خوشی ملتی ہے جتنی پہلے ملا کرتی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: آمنہ خرم کی تحریر ” قربانی ۔ ۔ ۔ آمنہ خرم”
اپنے دسترخوان وسیع کیجیئے۔ اپنے پیاروں کو گھر بلائیے۔ مہینے میں ایک بار ہی سہی، کبھی فون کرکے حال احوال پوچھا کیجیئے۔ اور خاص طور پر تہواروں پر دعوت کیجیئے۔ اپنے ہمسایوں کا ہر ممکن خیال رکھیے۔ کیا ہماری اسلامی روایات یہ نہیں تھیں کہ مہمان کے بغیر کھانا کھانے پہ اداس ہوجاتے تھے۔ اور کوئی ضرورت مند آجاتا تو اسے اللہ کی طرف سے مہمان سمجھا جاتا تھا۔ اور اب یہ حال ہے کہ اپنوں کے لیے ہی دل تنگ پڑجاتا ہے۔ پھر اگر کل بچے بڑے ہوکر ہمیں نہ پوچھیں تو شکایت مت کیجیئے گا۔ انہیں رشتے نبھانا ہم نے ہی تو سکھانا ہے۔ محبت کی اس ہنڈیا کے نیچے دھیمی دھیمی جذبوں کی آگ کو وقتاً فوقتاً سلگاتے رہیے۔
جواب دیں