Barcelona Olympics 1992

اولمپکس میں پاکستان کا آخری میڈل

ٹوکیواولمپکس میں پاکستان اگر ایک بھی تمغہ اپنے نام کرلیتا ہے تو یہ گزشتہ 7 اولمپکس میں اس کا پہلا تمغہ ہوگا۔ یا اگر آپ ایسے کہنا چاہیں کہ یہ گزشتہ 28 سالوں میں پاکستان کی اولمپکس میں پہلی کامیابی ہوگی۔ پاکستان نے اپنا آخری میڈل 1992 کے بارسلونا اولمپکس میں ہاکی میں جیتا تھا جو کہ ایک کانسی کا تمغہ تھا۔

Muhammad Usman Butt Journalist

محمدعثمان بٹ

جاپان کے شہر ٹوکیومیں اولمپکس کے مقابلے جاری ہیں۔ 2020 میں  شیڈول  اولمپک گیمز کورونا وبا کی وجہ سے ایک سال تاخیر سے ہورہے ہیں۔ پاکستان کا 10کھلاڑیوں اور 12 آفیشلز پر مشتمل 22رکنی دستہ اولمپکس کے 6کھیلوں میں حصہ لے رہا ہے۔ ان میں بیڈمنٹن، جوڈو، شوٹنگ، ویٹ لفٹنگ، سوئمنگ اور ایتھلیٹکس شامل ہیں۔ ویٹ لفٹنگ میں طلحہ طالب ہارنے کے باوجود قوم کے دل جیت چکا ہے۔ بیڈمنٹن میں ماحورشہزاد اپنے دونوں میچ ہار کر میڈل کی دوڑ سے باہر ہوچکی ہیں۔ شوٹر گلفام جوزف 10میٹرایئرپسٹل کے مقابلوں میں ایک پوزیشن کے فرق سے اگلے راؤنڈ میں کوالیفائی نہ کرسکے۔ سوئمنگ کے 100میٹرز مقابلوں میں طارق حسیب متاثرکن کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے۔

سوئمنگ کے 50 میٹر مقابلے میں بسمہ خان، جوڈو میں شاہ حسین شاہ، 200میٹرریس میں نجمہ پروین، جیولن تھرو میں ارشدندیم اور شوٹنگ میں غلام مصطفیٰ اور خلیل اختر کے مقابلے ہونا ابھی باقی ہیں۔ ان مقابلوں میں پاکستان اگر ایک بھی تمغہ اپنے نام کرلیتا ہے تو یہ گزشتہ 7 اولمپکس میں اس کا پہلا تمغہ ہوگا۔ یا اگر آپ ایسے کہنا چاہیں کہ یہ گزشتہ 28 سالوں میں پاکستان کی اولمپکس میں پہلی کامیابی ہوگی۔ جی ہاں! اتنے ہی سال گزر چکے ہیں پاکستان کو اولمپکس میں اپنا آخری میڈل جیتے ہوئے۔

Last Hockey medal

بارسلونااولمپکس(1992): ہاکی میں کانسی کا تمغہ، پاکستان کااولمپکس میں آخری میڈل

 قومی کھیل ہاکی کا نوحہ

پاکستان میں کھیلوں کی صورتحال پر ماتم کرنے کے لیےیوں تو ہر کھیل حاضر ہے۔ اپنے قومی کھیل ہاکی کی بات کریں تو یہ سوچ کر عجیب لگتا ہے کہ ٹوکیواولمپکس کے لیے ہماری ہاکی ٹیم کوالیفائی ہی نہ کرسکی۔ اور ایسی ہی صورتحال کا سامنا 2016میں برازیل کے شہر ریوڈی جنیرومیں ہونے والے اولمپکس میں بھی کرنا پڑاتھا۔ اس سے قبل 2012 کے اولمپکس میں ہاکی ٹیم نے ساتویں پوزیشن حاصل کی تھی۔ قومی کھیل ہاکی میں پاکستان نے اپنا آخری میڈل 1992 کے بارسلونا اولمپکس میں جیتا تھا جو کہ ایک کانسی کا تمغہ تھا۔ اور وہی اولمپک گیمز میں پاکستان کا آخری میڈل بھی ہے۔

باکسنگ ہیرو حسین شاہ کہاں گئے؟

Shah Hussain

انفرادی مقابلوں میں پاکستان کےلیے آخری اولمپکس میڈل جیتنے والے باکسر حسین شاہ

دوسری گیمز کی بات کریں تو پاکستان نے اپنی آخری کامیابی 1988 کے سیول اولمپکس میں حاصل کی تھی۔ جب باکسنگ میں حسین شاہ نے تاریخ رقم کرتے ہوئے پاکستان کے لیے باکسنگ  کے کھیل میں پہلی اور آخری مرتبہ برانز میڈل جیتا تھا۔ اس قومی ہیرو کے ساتھ ہم نے کیا سلوک کیا، یہ ایک علیحدہ کہانی ہے۔ بہرحال وہ بہترمستقبل کی تلاش میں بعدازاں جاپان منتقل ہوگئے اور وہیں سکونت اختیارکرلی۔ پاکستان سے باہر رہتے ہوئے بھی وہ ملک کے لیے ایک اور اولمپکس میڈل کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کے بیٹے شاہ حسین شاہ ٹوکیواولمپکس میں جوڈو کے مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کررہے ہیں۔

پاکستان کی اولمپکس تاریخ پر ایک نظر

1947 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد سے پاکستان باقاعدگی سے اولمپکس میں شرکت کررہا ہے۔ 1948 کے لندن اولمپکس میں پاکستان نے پہلی مرتبہ 35رکنی دستہ بھیجا۔ پاکستانی کھلاڑیوں نے 6 کھیلوں کے 20 ایونٹس میں شرکت کی تاہم کسی میں بھی ان کو وہ کامیابی حاصل نہ ہوئی کہ کوئی تمغہ اپنے نام کرتے۔ 1952 کے ہیلنسکی (فن لینڈ) اولمپکس میں بھی 38رکنی دستہ شریک ہوا اور 7 کھیلوں میں مقابلہ کیا مگر کوئی میڈل نہ جیت سکے۔

بالآخر 1956 کے میلبورن اولمپکس میں پاکستان کو پہلی کامیابی ملی ۔ جب قومی ہاکی ٹیم نے سلور میڈل حاصل کیا۔ پاکستان کا 58رکنی دستہ ان گیمزمیں شریک ہوا تھا۔ جس نے 8 کھیلوں کے 40 ایونٹس میں شرکت کی تھی۔ تاہم وکٹری اسٹینڈ پر جگہ صرف ہاکی ٹیم کو ملی جس نے فائنل میں انڈیا سے مقابلہ کیا اور شکست کھائی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کی اُس ہاکی ٹیم کے نائب کپتان لطیف الرحمان اور ایک کھلاڑی اخترحسین اس سے قبل 1948 کے لندن اولمپکس میں انڈیا کی طرف سے کھیل کرگولڈمیڈل جیت چکے تھے۔دونوں کھلاڑیوں نے بعدازاں پاکستانی شہریت حاصل کرلی تھی۔

ایک اولمپکس میں پاکستان کے دو میڈلز

1960 میں روم اولمپکس پاکستان کے لیے اس لحاظ سے خوش آئند رہے کہ قومی ہاکی ٹیم نے پہلی مرتبہ گولڈ میڈل حاصل کیا اور فائنل میں روایتی حریف بھارت کو شکست دی۔ انہی گیمز میں پاکستانی ریسلر محمدبشیر نے فری اسٹائل ریسلنگ میں تیسری پوزیشن حاصل کرکے برونز میڈل بھی اپنے نام کیا۔ یہ پاکستان کی ہاکی کے علاوہ کسی بھی دوسرے کھیل میں پہلی کامیابی تھی۔ ان گیمز میں پاکستان کے 44 رکنی دستے نے 7 کھیلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ اور پہلی اور آخری مرتبہ ایک ہی اولمپکس میں دو تمغے حاصل کیے۔

1964 کے ٹوکیواولمپکس میں ایک بار پھر پاکستان کوہاکی فائنل میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور صرف ایک سلور میڈل پر گزارا کیا۔جبکہ  41رکنی دستے نے 7کھیلوں میں حصہ لیا تھا۔ جن میں ایتھلیٹکس، سائیکلنگ، باکسنگ،  ویٹ لفٹنگ، شوٹنگ، ریسلنگ اور ہاکی شامل تھیں۔

1968میں میکسکوسٹی اولمپکس میں پاکستان کے صرف 20 رکنی دستے نے شرکت کی جن میں 18ہاکی پلیئرز اور دو پہلوان شامل تھے۔ ہاکی ٹیم نے فائنل میں آسٹریلیا کو شکست دے کر ایک بار پھر گولڈمیڈل اپنے نام کیا۔

 قومی ہاکی ٹیم پرتاحیات پابندی کا امکان؟

1972 کے میونخ اولمپکس میں پاکستان کا 28رکنی دستہ 5کھیلوں میں شریک ہوا۔ ہاکی ٹیم فائنل میں جرمنی سے ہار کر سلور میڈل حاصل کرسکی۔اس میچ میں پاکستانی کھلاڑیوں کو ایمپائرز کے جانبدارانہ رویے پر سخت تحفظات تھے  ۔ ایمپائرز نے پاکستانی پلیئرز کے دو گول مسترد کردیے جس کی وجہ سےمغربی جرمنی ایک صفر سے یہ مقابلہ جیتنےمیں کامیاب ہوا۔ احتجاجاً پاکستانی کھلاڑیوں نے میڈل گلے میں ڈالنے کی بجائے ہاتھوں میں پکڑلیے۔اس وقت کی ورلڈاولمپکس کمیٹی کے مطابق پانچ کھلاڑیوں نے سرعام میڈل کو اپنے جوتے میں رکھ کر اس کی نمائش کی۔ گرین شرٹس کے اس ردعمل نے یہ امکان پیدا کردیا تھا کہ قومی ٹیم پر تاحیات پابندی لگ جاتی۔ تاہم اس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستانی قوم کی طرف سے مغربی جرمنی سے معذرت کی۔ اور پاکستان ہاکی فیڈریشن نے اولمپکس کی عالمی کمیٹی کے سامنے معافی نامہ داخل کروادیا۔ان دو وجوہات کی بنا پر انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کی طرف سے تاحیات پابندی کا خطرہ ٹل گیا۔ البتہ پاکستانی ٹیم پر دو سال کےلیے مقابلوں میں حصہ لینے پر پابندی عائد کردی گئی۔

 

Munich Olympics

میونخ اولمپکس میں پاکستان کی شکست پرخبری تراشہ

1976کےمونٹریال اولمپکس میں پاکستان کے 24رکنی دستے نے 5کھیلوں میں نمائندگی کی۔ایک بار پھر صرف ہاکی ٹیم کانسی کا تمغہ لینے میں کامیاب ہوسکی۔

امریکہ کےقریب،کھیلوں سے دور

1980 میں ماسکواولمپکس کا پاکستان نے بائیکاٹ کیا۔ ان کھیلوں سے دوری کی وجہ پاکستان کی امریکہ سے قربت تھی۔ روس کے افغانستان پر حملے کے ردعمل میں امریکہ سمیت متعدد ممالک نے ماسکواولمپکس کا بائیکاٹ کیا۔ امریکہ سے قریبی تعلق کی وجہ سے پاکستان نے بھی ان گیمز میں شرکت نہ کی۔ 1984کے لاس اینجلس اولمپکس میں پاکستان کے 29 رکنی دستے نے 5 کھیلوں میں حصہ لیا۔ قومی ہاکی ٹیم نے ایک بار پھر سونے کا تمغہ اپنے نام کیا۔ یہ پاکستان کا اولمپکس کی تاریخ میں آخری گولڈمیڈل ثابت ہوا۔

Hussain Shah

باکسرحسین شاہ اولمپکس میں کامیابی کے بعد

1988کے  سیئول (جنوبی کوریا) اولمپکس میں پاکستان نےدوسری مرتبہ ہاکی کے علاوہ کسی اور کھیل میں تمغہ حاصل کیا۔ پاکستانی باکسر حسین شاہ نے برانزمیڈل جیت کر باکسنگ میں پہلی اور آخری بار تمغہ پاکستان کے نام کیا۔ حسین شاہ نے مڈل ویٹ میں یہ کامیابی حاصل کی۔ گزشتہ پچاس سالوں میں وہ واحد پاکستانی کھلاڑی ہیں جنہوں نے انفرادی مقابلے میں اولمپکس میں میڈل حاصل کیا۔ سیئول اولمپکس میں 31رکنی دستے نے 6کھیلوں میں حصہ لیا۔ ہاکی کے میدان میں پاکستان خاطرخواہ کارکردگی نہ دکھا سکا۔اور یوں صرف ایک برانز میڈل پاکستان کے حصے میں آیا۔

 

 

اولمپکس  کے آخری میڈل کی کہانی

1992 کے بارسلونااولمپکس پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ 27رکنی دستے نے 5 کھیلوں میں حصہ لیا۔ اورہاکی کے میدان میں کانسی کا تمغہ اپنے نام کیا۔ یہ پاکستان کی اولمپکس تاریخ کا آخری میڈل ثابت ہوا۔ 1992 سے لے کر آج تک ہونے والے تمام اولمپک گیمز میں پاکستانی دستے شرکت کرتے رہے لیکن ایک بھی میڈل حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ گزشتہ 28سالوں سے پاکستانی قوم اولمپکس میں تمغے کی تمنا لیے ایک ایسی روشنی کے انتظار میں ہے جو تاریک سرنگ میں بہت دور تک دکھائی نہیں دے رہی۔

اولمپکس میں پاکستانی خواتین کی شرکت

 

Shabana Akhtar

اولمپکس:پہلی پاکستانی خاتون کھلاڑی شبانہ اختر

1996کے اٹلانٹا اولمپکس نےپہلی مرتبہ  پاکستانی خواتین کے لیے کھیلوں کے عالمی مقابلے کی راہ ہموار کی۔ پاکستان کے 24رکنی دستے میں ایک خاتون ایتھلیٹ شبانہ اختر بھی شامل ہوئیں۔ قومی چیمپئن شبانہ اختر نے لانگ جمپ میں پاکستان کی نمائندگی کی لیکن وکٹری اسٹینڈ تک نہ پہنچ سکیں۔ان گیمز میں پاکستان ایک بھی تمغہ حاصل نہ کرسکا۔ اور پھرلاحاصل کا  یہ سلسلہ آنے والے تمام اولمپک گیمز میں جاری رہا۔

 

2000کے سڈنی اولمپکس، 2004 کے ایتھنز اولمپکس، 2008 کے بیجنگ اولمپکس، 2012کے لندن اولمپکس اور  2016 کے ریوڈی جنیرواولمپکس سبھی میں خواتین کھلاڑیوں  سمیت پاکستانی دستے نے شرکت کی۔ ہرگیمز میں 4 سے 7 کھیلوں کے تقریباً 10 ایونٹس میں حصہ بھی لیا۔ لیکن کسی ایک میں بھی وکٹری اسٹینڈ تک نہ پہنچ سکے۔

17اولمپکس مقابلے؛صرف 10میڈل

آزادی کے بعد سے 74 سالوں میں ایک اولمپک گیمز کے بائیکاٹ کے علاوہ پاکستان نے 17 مرتبہ ان عالمی کھیلوں میں شرکت کی  اور کُل 10 تمغے اپنے نام کیے جن میں 3 سونے، 3 چاندی اور 4 کانسی کے تمغے ہیں۔ تینوں گولڈمیڈل ہاکی کے کھیل میں حاصل کیے۔ ہاکی کے علاوہ صرف ریسلنگ اور باکسنگ میں ایک ایک تمغہ حاصل کیا۔ آج تک کسی پاکستانی خاتون کھلاڑی نے اولمپکس میں میڈل حاصل نہیں کیا۔ ٹوکیواولمپکس میں 18ویں مرتبہ پاکستانی  دستہ کھیلوں میں شریک ہے اور 6 مختلف گیمز کے 9 ایونٹس میں حصہ لے رہا ہے۔ 22 رکنی دستے میں صرف 10 کھلاڑی اور 12 آفیشلز شامل ہیں۔1948 میں ہونے والی اولمپک گیمز میں پاکستان کے 35رکنی دستے نے کھیلوں کے 20ایونٹس میں حصہ لیا تھا جبکہ رواں اولمپکس میں صرف9ایونٹس میں پاکستان کی نمائندگی ہورہی ہے۔

Pakistan Olympics Table

پاکستان کے اولمپکس میڈلز پرایک نظر: ہاکی میں تین گولڈ، تین سلور اور 2 برانز میڈل جبکہ ریسلنگ اورباکسنگ میں ایک ایک برانزمیڈل

کھیلوں کامیدان؛ترقی سے تنزلی کاسفر

کھیلوں کے میدان میں پاکستان کا سفر ترقی کی بجائے تنزلی کی جانب رواں ہے۔ کرکٹ کی چکا چوند نے باقی کھیلوں کو گہنا دیا ہے۔  رہی سہی کسر حکومت کی ناقص اسپورٹس پالیسی، بورڈز اور فیڈریشن کے ذاتی مسائل اور سفارشی کلچر نے پوری کردی ہے۔ میڈیا کی جانب سے بھی کرکٹ کے مقابلے میں دوسری کھیلوں کوبہت کم وقت دیا جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں کرکٹ کھیلنا، کرکٹ سے پیسہ کمانا،  کرکٹ دیکھنا اور کرکٹ کے بارے میں بات کرناہی کھلاڑیوں اور عوام کی ترجیح بن چکا ہے۔

اس ضمن میں کرکٹ کے علاوہ دیگر کھیلوں سے وابستہ کھلاڑیوں کا شکوہ بہت حدتک جائز ہے کہ وہ اگر عالمی مقابلوں میں بڑے سے بڑا تمغہ بھی حاصل کرلیں تو ان کو وہ پذیرائی نہیں ملتی جو کرکٹ کے صرف ایک میچ میں غیرمعمولی کارکردگی دکھانے والے کھلاڑی کو دی جاتی ہے۔ پاکستانیوں  کو من حیث القوم تمام کھیلوں کو اپنے معاشرے کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔ کھیلوں کی سرگرمیاں معاشرے میں مثبت رحجانات کو پروان چڑھاتی ہیں۔ہم اپنے اسپورٹس ہیروز کو سرکاری اور عوامی سطح پر پذیرائی دے کر مزید اچھے کھلاڑی پیدا کرسکتے ہیں اور دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرسکتے ہیں۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے