کہا جاتا ہے کہ جو قومیں اپنے ہیروز کو بھول جاتی ہیں ، تاریخ بھی ان کو بھلا دیتی ہے۔بدقسمتی سے ، پاکستانی بھی اپنے کھیل کے ہیروز کو یاد رکھنے میں اچھے نہیں ہیں۔ میرا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جو کھیلوں سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ اسی لیے میں نے اپنے والد کے ساتھ بہت چھوٹی عمر میں کھیلوں کے میدانوں میں جانا شروع کیا۔ میں صرف 8 سال کا تھا جب میں نے ٹی وی پر 2000 کے سڈنی اولمپکس دیکھے۔اُسے دیکھتے ہوئے ایک سوال میرے ذہن میں آیا، "عالمی مقابلوں میں پاکستان کے لئےسب سے پہلا میڈل کس نے جیتا ہے؟”
میرے والد ساری دنیا میں کھیلوں کے مقابلوں میں جاتے تھے۔جب وہ 2002 میں کامن ویلتھ گیمز میں شرکت کے لیے مانچسٹر گئے تو وہاں ان کی ملاقات ایک سابق ہندوستانی پہلوان سے ہوئی۔ جس نے میرے والد سے پوچھا، ” اب دین محمد کہاں ہے”؟ اب بہت سے لوگ یہ پڑھنے سے نہیں جان پائیں گے کہ دین محمد کون ہے۔ میں ان پر الزام نہیں لگاؤں گا ، کیوں کہ کھیلوں سے متعلق اعلیٰ حکام بھی اس کو نہیں جانتے تھے۔
دین محمد پاکستانی پہلوان ہیں، جنہوں نے 1954 میں منیلا (فلپائن) میں ہونے والی دوسری ایشین گیمز میں پاکستان کے لئے پہلا سونے کا تمغہ جیتا تھا۔ 1951 میں دہلی میں ہونے والی پہلی ایشین گیمز میں پاکستان نےمسئلہ کشمیر کی وجہ سے شرکت نہیں کی تھی۔
جب میرے والد انگلینڈ سے واپس آئے اور دین محمد کی تلاش شروع کی تو انہیں پاکستان کا وہ ہیرو نہ مل سکا۔ انہوں نے بہت سے پہلوانوں اور ریسلنگ آفیشلز سے پوچھا ، لیکن کسی کو بھی دین محمد کے بارے میں مصدقہ معلومات نہ تھیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ دین محمد بیرون ملک چلا گیا تھا اورچند افراد کا خیال تھا کہ وہ وفات پاچکے ہیں۔
اس کے باوجود میرے والد نے ہار نہ مانی اور اس کی تلاش جاری رکھی۔2010 میں عید کا دن تھا ، جب میرے والد کو بالآخر کسی کا فون آیا کہ دین محمد مل گیا ہے۔ عید سے لطف اندوز ہونے کے لئے ہم باہر جانے والے تھے جب ہمارے والد نے بتایا کہ ہم اسی دن لیجنڈ سے ملنے جائیں گے۔
واہگہ بارڈر کے قریب ایک گاؤں میں دین محمد کا گھر دیکھ کر ہم بہت مایوس ہوئے۔ عظیم پہلوان کچے مکان اور ایسی حالت میں رہ رہا تھا جس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ وہ 85 سالہ تھا اورانتہائی کسمپرسی کی حالت میں گزر بسر کر رہا تھا۔
میرے والد نے اُن سے ان کی تاریخی کامیابی کے بارے میں پوچھا ۔ میں بھی دین محمد سے ان کی زبانی پاکستان کے پہلے گولڈمیڈل کی کہانی سننے کو بے تاب تھا۔
دین محمد نے بتایا کہ وہ ایک انتہائی غریب گھرانے سے تھا۔ اس نے اپنے گاؤں میں ریسلنگ شروع کی۔ اُس وقت تہواروں کےموقع پرمختلف پروگراموں کا اہتمام کیا جاتا تھا، جن میں کشتی کے مقابلے بھی شامل تھے۔ وہ ان مقابلوں میں بہت اچھا پرفارم کرتا تھا ، اس لیے ایک کوچ اسے باٹاپور سے لاہور شہر لے گیا۔ وہاں اس کی دوسرے ریسلرز کے ساتھ کشتی کروائی گئی جن میں اس نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ۔اور یوں وہ فلپائن کے شہر منیلا میں ہونے والی ایشین گیمز کے لئے منتخب ہوگیا۔
دین محمد نے بھارتی پہلوان کو شکست دے کر پاکستان کے لئے کسی بھی عالمی مقابلے میں پہلاطلائی تمغہ جیت لیا۔ لیکن جب وہ اپنا میڈل وصول کرنے پوڈیم پر گئے توانتظامیہ کے پاس پاکستان کا جھنڈا اور قومی ترانہ نہیں تھا ،کیونکہ اس سے قبل کسی پاکستانی نے وکٹری اسٹینڈ تک جگہ نہیں بنائی تھی۔ منتظمین کا خیال تھا کہ ہندوستان کا پرچم لہرایا دیا جائے گا اور ان کا ترانہ بجایا جائے گا۔ لیکن دین محمد نے ایسے حالات میں میڈل لینے سے انکار کردیا۔
یہ بھی پڑھیں: وہ صرف سپاہی نہیں تھا
اس صورتحال میں بالآخر سفارتخانے سے پاکستان کے جھنڈے اور قومی ترانے کا اہتمام کیا گیا اور پھر دین محمد نے سونے کا تمغہ وصول کیا۔ لیکن جب وہ وطن واپس آیا تو اسےوہ عزت نہیں ملی جس کا وہ حق دار تھا۔ کسی نے بھی اس تاریخی ریکارڈ پر ان کوانعام دیا اور نہ حوصلہ افزائی کی۔ دین محمد نے اسی سال کامن ویلتھ گیمز میں بھی ایک میڈل اپنے نام کیا۔ ان ساری کامیابیوں کے باوجود اس کو مالی سپورٹ نہ ملی، لہذا اس نے ریسلنگ چھوڑ دی اور ایک عام شخص کی طرح زندگی گزارنا شروع کردی۔
جب ہم نے دین محمد سے پوچھا کہ انہوں نے اپنے بچوں کو پہلوان بننے کی اجازت کیوں نہیں دی؟ انہوں نے کہا کہ وہ بہت مایوس ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ ان کے بچے پہلوان بن کر اپنی زندگی برباد کریں۔ میرے والد اسے بہت سارے میڈیا چینلز پر لے گئے اور اس بات کو یقینی بنایا کہ دین محمد کو اس کے کارنامے کی وجہ سے کچھ پہچان مل جائے۔
دین محمد کی اس کہانی میں ہم سب کے لئے ایک سبق موجود ہے۔ ہم بحیثیت قوم صرف کرکٹ پر توجہ دیتے ہیں۔ لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ کرکٹ صرف 12 ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک میں ہی کھیلاجاتا ہے اور یہ اولمپکس کھیل بھی نہیں ہے۔ جبکہ دیگر کھیلوں کی پوری دنیا میں پیروی کی جاتی ہے لیکن ہم دوسرے کھیلوں کی شخصیات کوجانتے تک نہیں ہیں۔ ہمیں اپنے اسپورٹس ہیروز کو یاد رکھنا چاہئے جنہوں نے ملک کے لئے بہت محنت کی۔ اس وقت ہمارے تمام کھیلوں کی حالت شرمناک ہے ، کیوں کہ ہم نےدین محمد جیسے ہیروز کا احترام نہیں کیا۔
جواب دیں