جب ہم تنہا ہوتے ہیں تو اکثر وہ شخص آپ سے ملاقات کے لیے آجاتا ہے جو مجمعے میں نہیں آتا۔ وہ ہم پر اس قدر حاوی ہوتا ہے کہ ہم اس کی ہر بات مانتے چلے جاتے ہیں۔ غلط اور صحیح کا کوئی سوال کیے بغیر جانتے ہیں وہ شخص کون ہے۔ وہ ہمارا نفس ہے۔ جس پر صرف دل کی مرضی چلتی ہے۔ اور یہ دماغ کی سننے سے انکار کردیتا ہے۔
ہمارے اندر کا یہ شخص ایک جانور کی طرح ہے۔ جسے اگر ہم نے اچھے سے سدھا لیا تو ہمارا کردار مثبت کہلاتا ہے اور اگر نہ سدھار سکے تو منفی ہوجاتا ہے۔ ہماری ساری زندگی بس اسے سدھارنے میں صرف ہوجاتی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ہم کب یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اسے ‘ٹرینڈ’ کرلیا؟
تب جب ہم تنہائی میں سوچیں اور ہمیں کوئی برا خیال ہی نہ آئے۔ یعنی اچھے اور برے کی جنگ تو دور کی بات۔ برا کرنے کا خیال ہمارے پاس سے بھی نہ گزرے۔
یہ بھی پڑھیں: آمنہ خرم کی تحریر "معافی مانگیے؛ معذرت ضروری ہے”
یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ ماں باپ اپنی اولاد کی تربیت کرتے ہیں تو انہیں اولاد کی کمزوریوں اور خوبیوں خامیوں کا بخوبی علم ہوتا ہے۔ اب فرض کرتے ہیں کہ آپ کی اولاد پر کوئی چوری کا الزام لگ جائے تو آپ کے منہ سے فوراً یہ نکلے گا کہ میرا بچہ یہ کام نہیں کرسکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اس کی کردارنگاری اس حد تک کردی ہے کہ آپ جانتے ہیں وہ صحیح اور غلط کا فرق جانتا ہے۔ اور وہ یہ غلطی نہیں کرسکتا۔
بالکل اسی طرح اگر ہم نے اپنے نفس کی ٹریننگ مکمل کرلی تو برائی سرزد ہونا تو دور کی بات وہ ایسا سوچنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ صرف دل کی سننے والے اکثر خطا کربیٹھتے ہیں۔ کیونکہ دل تو صرف یہ بتاتا ہے کہ یہ کرلو۔ اس سے تمہیں لطف آئے گا۔ تمہیں اچھا لگے گا، تمہیں خوشی ملے گی۔ لیکن نفس کی تربیت کا پہلا اصول ہی یہ ہے کہ اسے عقل کی کسوٹی پر بار بار پرکھا جائے۔ جب کوئی کام کرنے لگیں تو اپنے آپ سے یہ سوال ضرور کرلیں کہ میں یہ کیوں کررہا ہوں۔ اور اگر عقلی دلائل ملیں تو جان لیجئے بات درست ہے۔ ورنہ اسے ترک کردیجئے۔
یہ بھی پڑھیں: آمنہ خرم کی تحریر "محرومی”
کردارنگاری کا دوسرا (بلکہ مجھے اسے سب سے پہلے رکھنا چاہیے) اور سب سے بڑا اصول ہے کہ اپنے نفس کا تعلق اس کے بنانے والے سے مضبوط ہو۔ یہ اپنے ہر عمل میں اسی مطلق العنان کے تابع ہو اور اس کے حکم کے خلاف جانے کی طاقت ہی نہ رکھتا ہو اور اس کی رضا میں اسے دائمی خوشی ملے۔ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کا اپنے رب سے مضبوط تعلق ہی تھا جس نے انہیں اتنی عظیم قربانی دینے کے لیے ایک لمحے میں تیار کرلیا۔ اور وجہ صرف رب کریم کی خوشنودی تھی۔
اس نفس کو لگام لگ گئی تو آپ کی نیتیں بھی خودی پاک ہوجاتی ہیں۔ اور نیت پاک ہونے کا مطلب ہے کہ کردار نگاری مکمل ہوگئی۔ یہ درست ہے کہ انسان خطا کا پتلا ہے۔ اور اس سے غلطیاں سرزد ہوجاتی ہیں لیکن اگر آپ کے اندر کا یہ شخص تنہائی میں آکر آپ کو ملامت کرتا ہے۔ آپ کی اصلاح کرتا ہے تو بہترین ہے۔ ورنہ اس شخص کو اس جانور کا درجہ ہی دیجیئے جسے ابھی مزید سدھارنے کی مشق جاری رہنی چاہیے۔
عید قرباں پر لوگ بہت سے جانور خریدتے ہیں۔ اچھے سے اچھا، مہنگے سے مہنگا۔ بچے اور بڑے اس شوق میں ہوتے ہیں کہ بہترین قسم کا جانور لایا جائے۔ اور اس عظیم سنت کو احسن طریقے سے نبھایا جائے۔ بہت اچھی بات ہے، اس جوش وخروش کو دیکھ کر بہت اچھا لگتا ہے۔ اسی جذبے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنی نئی نسل اور آنے والی نسلوں کو قربانی کے ذریعے عیدالاضحیٰ کا اصل مقصد سمجھا سکیں۔ اور انہیں بتا سکیں کہ سب سے عظیم قربانی اپنے اندر کے جانور کی ہے۔ تو آئیے اس عید پر ہم بھی اس قربانی میں اپنا کردار ادا کریں۔ تاکہ آئندہ جب آپ سے وہ شخص تنہائی میں ملنے آئے تو وہ آپ سے اور آپ اُس سے شرمندہ نہ ہوں۔
جواب دیں