Orphans

محرومی۔۔۔آمنہ خرم

لوگ صرف یہ کیوں سوچتے ہیں کہ بے اولاد ہوں تو ہی بچہ گود لیناچاہیے۔ یا ایسا صرف دل لگانے کے لیے کرنا چاہیے۔ کسی یتیم کے سر پر دست شفقت رکھنے کا درس ہمیں نبی کریم ﷺ سے ملا ہے۔ اس نیک کام سےایک یتیم کو ماں باپ کا سایہ اور اپنے گھر کی نعمت مل جائے گی

منثٰی بہت پراعتماد تھی، بہت پرعزم۔ ہمیشہ کی طرح اسے معلوم تھا کہ جو وہ کرنے جارہی ہے وہ کسی اعتبار سے غلط نہیں۔ زندگی کے ہرموڑ پر اپنے فیصلے خود لینے کا اعتماد اسے ماں کی طرف سے ملاتھا۔ سعد کو وہ پہلے ہی اپنے فیصلے سے آگاہ کرچکی تھی ۔بس اب عملی جامہ پہنانا باقی تھا۔ وہ جانتی تھی کہ بروقت کیے ہوئے فیصلے بہت سے مسائل کا حل ہوتے ہیں۔

شادی کے تیسرے سال اللہ نے منثیٰ کو ایک پیاری سی بیٹی سے نوازا۔ جہاں ایک طرف اسے اللہ کا یہ انعام ملا تو دوسری طرف یہ دل شکستہ خبر بھی ملی کہ وہ اب کبھی دوبارہ ماں نہیں بن سکے گی۔ اس کی ڈیلیوری میں کچھ ایسی پیچیدگیاں پیدا ہوئیں تھیں جس کی وجہ سے معاملہ بگڑ گیا تھا۔ بہرحال منثیٰ نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ کم ازکم اللہ نے اسے ایک بار اس نعمت سے نواز دیا ہے۔ سعد بھی ایک شاکر انسان تھا۔ دونوں نے اللہ کی رضا کو صدق دل سے قبول کرلیا۔

تھوڑا وقت گزرگیا اور ان کی بیٹی "عائزہ” ایک سال کی ہوگئی تھی۔ اس کی شرارتیں ، مسکراہٹ اور مصروفیت وقت گزرنے کا احسا س نہ ہونے دیتے۔ لیکن اس کے باوجود منثیٰ  کے دل ودماغ پر ایک سوچ بسیرا کیے ہوئے تھی۔ وہ خود بھی اکلوتی اولاد تھی۔ بظاہر وہ ایک خوش باش، پراعتماد لڑکی تھی مگر اندر سے اسے ایک عجیب سی تنہائی کا احساس گھیرے رکھتا تھا۔ اپنے کزنز اور دوستوں کو جب ان کے بہن بھائیوں کے ساتھ ہنستے کھیلتے، خوش گپیاں کرتے، کبھی لڑائی جھگڑے کرتے تو کبھی ننھی ننھی شرارتیں کرتے دیکھتی تو یہی سوچتی کہ وہ اپنے گھر میں کس کے ساتھ یہ سب بانٹے۔ کبھی کبھی کسی سہیلی کے چھوٹے  بہن بھائی اسے آپی کہتے اور اپنے مسئلے بتاتےتو وہ بڑی باجیوں کی طرح اس کا لطف لیتی۔

یہ بھی پڑھیں: آمنہ خرم کی تحریر "معافی مانگیے؛ معذرت ضروری ہے”

پھر بڑے ہوتے ہوئے اس نے دیکھا کہ کیسے بہنیں مل جل کر کھانے پکاتی ہیں۔ کرافٹنگ کرتی ہیں، کپڑوں کی ڈیزائننگ ، گھر کی آرائش اور بہت سی اور مزے مزے کی سرگرمیاں جنہیں وہ اپنی زندگی میں ہمیشہ ایک محرومی کی طرح محسوس کرتی آئی ہے۔ اور اب عائزہ بھی اسی تنہائی کا شکار رہے گی۔

پہلی بار اس نے اپنی ماں کے سامنے اس بات کا ذکر کیا کہ وہ کسی ادارے سے ایک بچہ گود لینا چاہتی ہے تو صابرہ بیگم نے حیران ہوکر کہا۔ "منثیٰ اللہ نے تمہیں اولاد تو دی ہے۔ اسی سے دل لگاؤ۔ یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ بہت سے شرعی مسائل ہوتے ہیں اور معاشرتی طور پر اسے قبول کرنا آسان نہ ہوگا۔ سعد بھی تمہاری زندگی کا حصہ ہے۔ اس کی رضامندی بھی ضروری ہے”۔

اس نے بڑی رسانت سے ماں کے گرد بازو پھیلائے اور بڑے اعتماد سے بولی ۔ "لوگ صرف یہ کیوں سوچتے ہیں کہ بے اولاد ہوں تو ہی بچہ گود لیناچاہیے۔ یا ایسا صرف دل لگانے کے لیے کرنا چاہیے۔ یہ ٹھیک ہے کہ میرے پاس اللہ کی عطا کی ہوئی اولاد ہے۔ میرا اس سے دل بھی شاد ہے۔ مگر امی اس کام میں بھی اللہ کی رضا اور خوشنودی ہے۔ کسی یتیم کے سر پر دست شفقت رکھنے کا درس ہمیں نبی کریم ﷺ سے ملا ہے۔ اور اس ایک نیک کام سے میری بچی کو ایک بہن/ بھائی کا رشتہ مل جائے گا۔ ایک یتیم کو ماں باپ کا سایہ اور اپنے گھر کی نعمت مل جائے گی۔ جو محرومی میں نے اپنے بچپن میں محسوس کی وہ عائزہ کو محسوس نہ ہوگی”۔ پھر مسکرا کر بولی ، "کیا ایسا نیک عمل شریعت میں ممنوع ہوسکتا ہے؟”

یہ بھی پڑھیں: آمنہ خرم کی تحریر "پذیرائی

صابرہ بیگم بولی ، "وہ تو ٹھیک ہے بیٹا! مگر وہ بچی ہوئی تو سعد کے لیے اور اگر بچہ ہوا تو آپ کے لیے نامحرم تصور ہوگا”۔ اس بار بھی وہ نہایت اعتماد سے بولی، "ابھی عائزہ چھوٹی ہے اور دودھ پیتی ہے۔ انشااللہ بچہ اس کا رضاعی بھائی/بہن ہوگا تو یہ مسائل بھی نہیں ہوں گے”۔ پھر مزید کہا، "پیاری امی ! ہر کام کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ نیت نیک ہو تو اللہ راستے نکال دیتا ہے۔ ہمارا دین ہمیں دوسروں کا سہارا بننے کا درس دیتا ہے۔ یتیم بچے کو محفوظ مستقبل دینا کوئی معمولی عمل نہیں۔ انشااللہ یہ بچہ ہماری آخرت بھی سنوار دے گا”۔

اب صابرہ بیگم نے اس سے کوئی سوال نہ کیا کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ ان کی بیٹی ہمیشہ کی طرح ثابت قدمی سے اپنا فیصلہ نبھائے گی اور انصاف کے تقاضے پورے کرے گی۔ اور پھر یہی ہوا۔ منثیٰ نے سعد کو بھی قائل کرلیا  اور ایک ادارے میں اپنا نام درج کروا دیا۔ ٹھیک، پانچ ماہ کے بعد وہاں سے فون کال موصول ہوئی۔ اُنہوں نے ان کی مکمل تحقیقات کروائیں اور کچھ رسمی معاملات پورے کیے اور ایک یتیم بچی ان کی گود میں ڈال دی۔

اُس دن وہ اپنے دل میں ایک عجیب سا اطمینان اور خوشی محسوس کررہی تھی۔ اس بچی کا نام انہوں نے ‘آئمہ’ رکھا۔ ابھی عائزہ ماں کا دودھ پی رہی تھی لہذا آئمہ اس کی دودھ شریک بہن بن گئی تھی۔ سعدمنثیٰ کا بھرپور ساتھ دے رہا تھا۔ وہ مطمئن اور خوش ہونے کے ساتھ منثیٰ کی مثبت سوچ پر فخر محسوس کررہا تھا۔

Sisterhood

One of the best relation in world is sisterhood

وقت گزررہا تھا۔ بچیاں بڑی ہورہی تھیں۔ منثیٰ نے کسی موقع پر بھی غفلت نہ دکھائی، دونوں بچیوں کے لیے ایک سی محبت ، ایک سی احساس ذمہ داری، ایک سی تربیت۔ غرض کہ وہ ایک مثالی ماں تھی جس نے انصاف کے تقاضے فرض سمجھ کر ادا کیے۔ اس نے اپنی محرومی سے سیکھا کہ کیسے رشتے بنائے جاتے ہیں۔ اپنی بچی کو ایک بہن کا تحفہ دیا۔ جب دونوں بچیاں آپس میں کھیلتیں تو وہ خوشی سے نہال ہوجاتی۔ دونوں مل کر پڑھائی کرتیں، اکھٹے کھاتیں، سوتیں اور وہ ہرسانس پر اللہ کا شکر ادا کرتی کہ اللہ نے اس کے لیے سب آسان کردیا۔

تھوڑا اور وقت گزرا تو بچیاں جوان ہوگئیں۔ دونوں بچیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ معاشرے کا ایک اہم فرد بنایا۔ لوگوں کے کام آنا سکھایا۔ اور آئمہ نے تو ایک فلاحی ادارہ بھی کھول لیا تھا جس میں یتیم بچوں کی تعلیم وتربیت کی جاتی تھی۔ آج صابرہ بیگم نے منثیٰ کو گلے سے لگا کر کہا، "بیٹا آپ نے واقعی اپنے لیے جنت خریدلی، مجھے فخر ہے آپ پر۔ کاش ہمارے معاشرے کا ہرفرد بھی اسی طرح دوسروں کے لیے سوچے تو کوئی یتیم بھی بے گھر نہ رہے”۔

One Ping

  1. Pingback: دروازہ۔۔۔آمنہ خرم - دی بلائنڈ سائڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے