I am sorry

معافی مانگیئے؛ معذرت ضروری ہے ۔۔۔ آمنہ خرم

اپنے روئیوں میں برداشت اور لچک کا مظاہرہ کیجئے۔ اپنے علاوہ دوسروں کو بھی انسان سمجھیے۔ انہیں غلطی کرنے کا مارجن دیجیئے اور اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی ضرور کیجئے۔ بچوں کی تربیت میں شروع سے اس بات کا خیال رکھیے کہ جب ان سے کوئی غلطی ہوجائے تو وہ معذرت کریں۔ اور خود بھی ان سے معافی مانگیں۔

ہمارے ایک بڑے بزرگ استاد تھے جو اکثر کہا کرتے کہ بیٹا! معافی مانگتے رہنا چاہیے۔ یہ ایک بہت خوبصورت عمل ہے۔ اور ایک پاورفل نسخہ ہے لوگوں کا دل صاف کرنے کا، انہیں اپنا گرویدہ کرنے کا۔ جب کچی عمر تھی تو ہم اس پر ہنسا کرتے تھے کہ لو جی اب سب کو سوری کہتے پھریں۔ اور بھلا سوری کرلی تو ناک کہاں سلامت رہے گی۔ جس سے کی وہ تو اپنے آپ کو کوئی مہان دیوتا سمجھے گا۔ اور اس پر اگر کسی نے دیکھ لیا تو بس باقی کی ساری زندگی مذاق کا نشانہ بناتا رہے گا۔ مگر جیسے جیسے عمر پختہ ہوئی، زندگی کے تلخ و تند تجربات سے گزرے۔  یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ استاد جی سچ کہتے تھے۔ بات تو سولہ آنے سچ ہے۔

آپ یقین کیجیئے آپ کے سامنا والا سخت غصے میں بھی ہوگا۔ آپ کا شائستگی سے کیا ہوا معذرت کا اظہار اسے کچھ بولنے کے قابل نہیں چھوڑے گا۔ اگر ایک آدھ جملہ پھر بھی بول گیا تواس کے بعد آپ کا راستہ چھوڑ دے گا۔ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ چھوٹے بچے غلطیاں کرتے ہیں اور پھر ماں سے لپٹ کر کان پکڑ لیتے ہیں۔ بعض دفعہ تو معذرت کرتے ہیں مگر زیادہ تر تو اپنے عمل سے اظہار کرتے ہیں کہ وہ شرمندہ ہوگئے ہیں۔ جواب میں ماں جو چند لمحے پہلے غصے سے بھری ہوتی ہے۔  اسے اپنے ساتھ لپٹاتی ہے، اسے چومتی چاٹتی ہے اور اس کا غصہ اُڑن چھو ہوجاتا ہے۔ یہ جادوئی لفظ ہیں جو ادا ہوتے ہی اگلا بندہ موم کی طرح پگھل جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آمنہ خرم کی تحریر "پذیرائی”

میری گھریلو ملازمہ اکثر چھٹیوں پہ چلی جاتی ہے مگر آتے ہی ڈانٹ بھی سن لیتی ہے۔ ساتھ ہی شرمندگی سے کہہ دیتی "باجی معاف کردیجئے آئندہ کوشش کروں گی ایسا نہ کروں”۔ یہ رٹا ہوا جملہ ہوتا ہے مگر پھر بھی میں اس کو معاف کردینے پر مجبور ہوجاتی ہوں۔

Apology

Apology is the best policy

گھر ایک ایسی جگہ واقع ہے جہاں بالکل چوراہا بنتا ہے آئے دن مشاہدے میں آتا ہے کہ کوئی نہ کوئی ٹکرا جاتا ہے۔ کبھی تو چھوٹے موٹے اور کبھی بڑے ایکسیڈنٹ بھی ہوجاتے ہیں لیکن جو لوگ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور معافی تلافی سے کام چلا لیتے ہیں تو معاملہ خوش اسلوبی سے نبٹ جاتا ہے۔ اور جہاں ایسے مزاج ہوں کہ بات سننا اور برداشت کرنا گوارا نہیں تو بعض اوقات پولیس کو مداخلت کرنا پڑتی ہے۔  پھر آخر میں صلح صفائی انہی معاشرتی، اخلاقی اقدار سے ہوتی ہے۔ تو کیوں نہ پہلے ہی اچھے اقوام کی طرح ایک دوسرے کے نقصان پر رنج کا اظہار کرتے ہوئے معذرت کرلیں۔

ہم دیکھتے ہیں مہذب معاشرے انہی اصولوں اور اقدار کو اپنائے ہوئے ہیں اور آج ہم جب وہاں جائیں تو اُن کی اِن عادات سے بہت متاثربھی ہوتے ہیں، غلطی ہو یا نہ ہو یہ لوگ معذرت کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگاتے۔

ابھی پچھلے ہفتے ہمارے محلے میں ایک میاں بیوی میں علیحدگی ہوگئی۔ جہاں اور بہت سی وجوہات سامنے آئیں تو یہ بھی معلوم ہوا کہ موصوفہ بہت انا پرست تھیں۔ اور شوہر سے معذرت کے لیے تیار نہ تھیں حالانکہ بہت سے معاملات میں انہی کا قصور تھا ۔اور ثابت ہوجانے کے بعد بھی اس سے یہ چند الفاظ جن سے اس کا گھر بس سکتا تھا ادا نہ ہوئے۔

اگر تھوڑا غور کریں تو ہمارا رب بھی ہم سے اسی بات کا متقاضی ہے کہ ہم اُس سے اس کی رحمت طلب کرتے رہیں۔ اپنے گناہوں پہ استغفار کرتے رہیں۔ اپنی غلطیوں پر اس کے حضور ندامت کا اظہار کرتے رہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ہماری فطرت کے عین مطابق ہے۔ جس طرح وضو کرنے سے ہمارے جراثیم دُھل جاتےہیں۔ غسل سے جسم کی صفائی ہوجاتی ہے ۔تو یہ استغفار ہماری روح کا غسل ہے، یعنی انسانی جسم کی ڈیزائننگ اسی اصول پر کی گئی ہے۔

Sorry Sorry

Say Sorry, Save Relations

تھوڑی کوشش سے ہم اپنے اندر چند تبدیلیاں کرکے اس ایک اچھی عادت کو اپنا لیں۔ تو یقین جانیے ہمارے بہت سے مسائل حل ہوجائیں گے۔ میاں اور بیوی کے درمیان اختلافات میں بہت حد تک کمی ہوجائے گی۔ اگر اوپر بیان کردہ واقعہ میں بیوی اپنے میاں سے معذرت کرلیتی کہ میں معافی چاہتی ہوں۔ پلیز اتنی سی بات پہ گھر توڑنے کی بات نہ کریں تو جواب میں میاں کا دل صاف ہوجاتا۔ اور بعد میں وہ بھی اپنی بیوی سے معذرت کرتا کہ نہیں معافی تو مجھے مانگنی چاہیے کہ اس ذرا سی بات پہ میں اپنا گھر توڑنے چلا تھا۔ میں جذباتی ہوگیا تھا۔ تو لیجیے مسئلہ حل ہوجاتا۔

اپنے روئیوں میں برداشت اور لچک کا مظاہرہ کیجئے۔ اپنے علاوہ دوسروں کو بھی انسان سمجھیے۔ انہیں غلطی کرنے کا مارجن دیجیئے اور اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی ضرور کیجئے۔ بچوں کی تربیت میں شروع سے اس بات کا خیال رکھیے کہ جب ان سے کوئی غلطی ہوجائے تو وہ معذرت کریں۔ اور خود بھی ان سے معافی مانگیں۔ جب آپ انہیں کسی قسم کی تکلیف دے بیٹھیں۔ راستہ میں کسی کو ٹھوکر لگ جائے، کسی کا چھوٹے سے چھوٹا نقصان ہوجائے تو فوراً انگریزی یا اردو میں معذرت کیجئے۔ آپ غلطی سے کسی کا دل دکھا دیں تب بھی اس پیار اور خلوص سے اِس سے معذرت کریں کہ اِس کا دل صاف ہوجائے ۔ کوئی وعدہ پورا نہ کرسکیں، وقت پہ کام مکمل نہ کرسکیں تو تب بھی معافی مانگیے۔ تاویلیں مت دیں۔ بحث مت کریں۔

ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ہم جس بھی مقام پر ہوتے ہیں اپنے ماتحتوں یا اپنے سے چھوٹے درجے کے لوگوں یا بہن بھائیوں کو بھی اسی دائرے میں شامل رکھیے۔ پھر چاہے وہ دفتر کا چپڑاسی ہی کیوں نہ ہو یا پھر کوئی غریب رشتہ دار۔

آپ سوچ رہے ہیں کہ یہ سب مشکل ہے تو یقین جانیے، ہماری دینی تعلیمات بھی یہی ہیں۔ بھلے تو اپنے نبی ﷺ کا اسوہ حسنہ کھول کردیکھ لیجئے۔ اور جب آپ نے اس عادت کو اپنا لیا تو اپنے آپ کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کریں گے۔ اور گارنٹی ہے کہ لوگ بھی آپ کے گرویدہ ہوتے چلے جائیں گے۔

2 Pings & Trackbacks

  1. Pingback: محرومی۔۔۔آمنہ خرم - دی بلائنڈ سائڈ

  2. Pingback: قربانی ۔ ۔ ۔ آمنہ خرم - دی بلائنڈ سائڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے