جنسی زیادتی کی وجہ فحاشی یا بیماری؟

ریپ جیسا گھناؤنا جرم یا تو کوئی ہوس کا پجاری شخص مجرمانہ ذہنیت کی بنیاد پر کرسکتا ہے یا پھر ذہنی بیماری کی وجہ سے۔ اگرکوئی ایسا مجرمانہ ذہنیت کی بنیاد پر کررہا ہے تو اسے قید میں ہونا چاہیے اور اگر ذہنی بیماری کی وجہ سےتو اسے اسپتال میں ہونا چاہیے

 

فہیم احمد

کچھ حساس موضوعات ایسے ہوتےہیں  جن پر  لکھنا  یا بولنا تھوڑ ا مشکل اس لیے ہوجاتا ہے  کہ اگر آپ اس حوالے سے    رائے کا اظہار کرتے وقت الفاظ کا چناؤاور موقع کالحاظ نہ کریں تو  دی جانی والی رائے کسی نہ کسی صورت  متنازع  بن جاتی ہے۔ایسی ہی ایک رائے وزیراعظم عمران خان نے   فحاشی اور  ریپ کے بارے میں دی   ، یہ  بات اس قدر متنازع بن گئی ہے یا بنا دی گئی ہے کہ اس حوالے سے رائے دینے والا بھی متنازع ہوجاتا ہے۔ یا  تو آپ پر   کچھ مذہبی حلقے، لبرل اور لادین ہونے کا فتویٰ لگا سکتے ہیں یا  پھر   لبر ل طبقے قدامت پسند مذہبی  ہونے کا  ٹھپہ لگاسکتےہیں۔ اس لیے   میں کوشش کروں گاکہ  دلائل اوراحتیاط  کے ساتھ تحریر لکھوں۔

پہلے تو  وزیر اعظم کے بیان کے حوالےسے بات  کرتے  ہیں کہ کیا ان کا بیان واقعی  انتہائی متنازع تھا؟ وزیر اعظم   ریاست کا سربراہ ہوتا ہے   اور اگر وہ کچھ ایسا دیکھے جو معاشرے میں بگاڑ کا باعث بن رہا ہے تو اسے سیاسی نقصان سے بالاتر ہوکر  اس حوالے سے بات یا اقدامات کرنے چاہئیں کیونکہ بطور سربراہ یہ اس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ   بہت کم لوگ ایسا کرسکتے ہیں  کیونکہ اس کے لیے ہمت چاہیے ہوتی ہے جو وزیراعظم نے  دیکھائی لیکن اس کے ساتھ ساتھ خان صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اکثر کئی باتیں ایسے انداز میں اور ایسے وقت میں  کرجاتے ہیں کہ متنازع ہوجاتے ہیں۔ لیڈر کی ایک خاصیت بات کوحسن تدبر سے کرنا  بھی ہوتی ہے جسے وزیر اعظم صاحب کبھی کبھی نظر انداز کردیتے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان کا مکمل بیان سنیں تو انہوں نے کہیں یہ نہیں کہا کہ جن کے ساتھ ریپ ہوا، وہ اُن لوگوں کے کپڑوں کی وجہ سے ہوا

وزیر اعظم کو اپنی سوچ  کی تصحیح کی ضرورت ہے۔ انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ  کسی خاتون  یا مرد  کاکپڑوں یا شخصیت کی وجہ سے ایک دوسرے کی طرف  متوجہ ہوجانا  بڑی بات نہیں ہے ۔ ایسا ہوسکتا ہے  ،لیکن کیا یہ متوجہ ہوجا نا  اسے دوسرے شخص پر کوئی حق دے دیتا ہے یا اس  کو ریپ  کرنے پر مجبور کردیتا ہے؟  یا اسے ریپ  کی وجہ قرار دیاسکتا ہے؟  تو نہیں ایسا نہیں ہونا چاہیے۔  ریپ جیسا  گھناؤنا  جرم یا تو   کوئی ہوس کا پجاری شخص مجرمانہ  ذہنیت کی بنیاد پر کرسکتا ہے یا پھر ذہنی بیماری  کی وجہ سے ۔ اگر کوئی ایسا مجرمانہ ذہنیت کی بنیاد پر کررہا ہے تو اسے قید میں ہونا چاہیے اور اگر ذہنی بیماری کی وجہ سے کررہا ہے تو اسے اسپتال میں ہونا چاہیے ۔  لیکن کسی خاتون یا بچے کو ریپ کا نشانہ بنانے کے لیے  جواز گھڑ کر نہ تو کسی کو  اس جرم کی  وجہ فراہم کی جانی  چاہیے اور نہ ہی ایسے  شخص کوآزادی کے ساتھ رہنے  اور لوگوں کی زندگیاں برباد کرنے کی اجازت دی جانی  چاہیے۔

جس طرح  وزیر اعظم  کے  بات کرنے کے طریقہ کار پرتنقید کی جاسکتی ہے ویسے  ہی  فکری بددیانتی کا  مظاہر ہ کرکے اس بات  کو غلط انداز میں  بھی نہیں بیان کرنا چاہیے۔  وزیر اعظم عمران خان  کا مکمل بیان سنیں  تو انہوں   نے کہیں  یہ نہیں کہا کہ  جن  کے ساتھ ریپ ہوا ، وہ ان لوگوں کے  کپڑوں کی وجہ سے ہوا،(جیسا کہ کچھ تجزیہ نگار   تشریح کررہے ہیں)۔ وزیراعظم  نےوسیع تناظرمیں بات کی،  اُسے اسی انداز میں سمجھنا چاہیے۔  یہ کہنا درست ہے کہ فحاشی  اور ریپ کو ایک دوسرے سے  مکمل طور جوڑ نا غلط ہے ، لیکن اگر معاشرے میں یہ ہورہاہے کہ چھوٹی چھوٹی عمر کے بچوں سے لے کر عمر رسیدہ افراد  بھی  گھناؤنے  جرم  کا ارتکاب کررہے ہیں۔  اور یہ واقعات بڑھتے جارہے ہیں تو ہمیں سوچنا پڑے  گا   کہ یقینی طور  معاشرے میں کچھ تو ایسا ہورہاہے کہ جو انتہائی غلط ہے ۔ معاشرے میں تبدیلی دو ہی طریقے سے آسکتی ہے  ، ایک  اخلاقی اصلاح اور دوسرا قانون پر عملدرآمد۔

جہاں تک  بحث  خواتین کے لباس اور مرد کی نظرو  ں کےحوالے سے ہے تو کوئی بھی  رائے بے معنی ہوجاتی ہے ، کیونکہ قرآن  کی سورہ نورکی  آیت 30 میں مردوں کوواضح  تاکید کی گئی ہے۔

ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کو بھی محفوظ رکھیں، یہ ان کے لیے بہت پاکیزہ ہے، بے شک اللہ جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں۔

جبکہ سورہ نورکی  آیت 31 میں خواتین  کے حوالے سے بھی تاکید موجود ہے۔

اور ایمان والیوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے، اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں۔

یعنی  مذہب نے مرد اور عورت دونوں کے لیے حدود و قیود طے کردی  ہیں ۔ مذہب نے کسی ایک پر  ذمہ داری عائد  نہیں کی  بلکہ دونوں پر عائد کی ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم خود  عمل کرنے کی بجائے جنس مخالف کو اس پر عمل کرنے کا لیکچر دیتے رہتے ہیں  ۔ یہی وہ ضد ہے  جو خرابی کی بنیاد ہے اور جب  تک  بنیاد ٹھیک نہیں ہوگی کچھ نہیں بدلے گا۔ یاد رکھیں کہ ایک دوسرے پر الزام تراشی اور غیرمنطقی جواز گھڑنے سے بہتر ی نہیں آسکتی۔   اس لیے معاشرے میں  تبدیلی کے لیے دو اقدامات ضروری ہیں  پہلا اخلاقی اصلاح اور دوسرا قانون پر عملدرآمد۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے