ہمتِ نسواں مدد خدا

لیڈی ڈیانا شہزادی ہونے کے باوجود جب شہزادہ چارلس کی توجہ حاصل نہ کرپائی تو بکھر کے رہ گئی اور اسی غم کو پالتے دنیا سے رخصت ہوگئی

سیدہ عائشہ ناز

عورت کو "صنف نازک” کہنے اور اس کے ساتھ اُسے "ناقص العقل” قرار دینے کی روش ہمارے معاشرے میں ایک روایت کے طورپرمستعمل ہے۔ اس سے "انسانیت کی خدمت” کیا ہوسکی، کوئی راوی اس پہ خاموشی سےاحتراز نہ برت سکا، مگر عورتوں نے اس تاثر کا زور توڑنے کی کوشش کہاں تک کی؟ کیا کُل آبادی کا 52فیصد بقیہ 48 فیصد پر سبقت لے جاسکا یا کم ازکم برابری ہی کرسکا تو اس کا جواب یقیناً نفی میں ہوگا۔ اس میں قصوروار کون ہے، یہ ایک طویل بحث ہے اور کئی بار ٹٹولی گئی مگر سرا ہاتھ نہیں آیا۔

اسی بحث کا ایک پہلو جسے آج تک قابل غور نہیں سمجھا گیا وہ عورت کا مرد کی تعریف یا اس کی داد کا محتاج ہونا ہے۔ نہ جانے یہ کیوں کہا گیا کہ "ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے” جبکہ اصل میں ہر کامیاب عورت ایک مرد کے ساتھ اور اس کی ستائش کی پیاسی پائی جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں جو کہ بہت سے خوبصورت رشتوں میں گندھا ہے۔ یہ امر دلچسپ ہے کہ اگر عورت نے سجنے سنورنے کی تحریک پکڑنی ہے تو صرت اور صرف کسی مرد کے دل میں اُترنے اور اسے متاثر کرنے کے لیے وگرنہ اس کی اپنی ذات کی تسکین کوئی معنی نہیں رکھتی۔ کوئی بیٹی ہے تو اسے اپنے باپ سے شاباشی کے بول درکار ہوں گے ۔ کوئی بیوی ہے تو اسے شوہر کی جانب سے تحسین کے کلمات ملتے رہیں گے تو وہ پھول کی طرح کھلی رہے گی، یعنی مرد کسی نہ کسی روپ میں عورت کے لیے پاور بینک یا توانائی کا ذریعہ ہے اور یہ نفسیات محض ہمارے معاشرے تک محدود نہیں۔

لیڈی ڈیانا شہزادی ہونے کے باوجود جب شہزادہ چارلس کی توجہ حاصل نہ کرپائی تو بکھر کے رہ گئی اور اسی غم کو پالتے دنیا سے رخصت ہوگئی، شہزادہ چارلس کے غم کو غلط کرنے کے لیے کئی اُدھورے عشق پالے مگر بات نہ بن سکی۔ میڈم نورجہاں کو سنوارنے اور بنانے میں شوکت حسین رضوی کا کردار ایسی ہی ستائش کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مارلن منرو جان ایف کینیڈی کے بعد ڈھل گئی اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔

مرد کی توجہ اور دل جیتنے کی دوڑنے ہی کاسمیٹکس بزنس کو بڑھاوا دیا ہے۔ وائٹننگ انجکشنز ہوں یا فلرز، بوٹوکس ہوں یا کیٹو ڈائٹ، مرد کو متاثر کرنے اور اس سے تعریف سمیٹنے کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے اور اسی نفسیات کو استعمال کرکے کمپنیز خوب منافع کما رہی ہیں۔
اس امر کی سائنسی توجیہات بھی موجود ہیں اور ان کی اہمیت سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا مگر کیا عادتیں بدلنا اور بہتر روش کی طرف مائل ہونا ارتقا نہیں؟ ہر وہ چیز جس میں خرابی کا عنصر ہو اسے سوچنے سمجھنے اور اصلاح کرنے میں کوئی عار نہیں ہے۔ اگر خواتین اپنے ذہن سے محتاجی کا خودرو پودہ اکھاڑ پھینکیں تو کیا ہونہیں سکتا۔ یہاں تک کہ محاورہ بھی بدل جائے گا "ہمت مرداں مدد خدا” سے "ہمت نسواں مدد خدا”۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے