جب 2020ء کے اوائل میں کووڈ-19 نے دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور تقریباً تمام ہی ممالک میں لاک ڈاؤن کی صورت حال پیدا ہوئی تو اسی وقت خواتین پر تشدد کے حوالے سے نئے خدشات پیدا ہو گئے تھے۔ کیونکہ خواتین پر مظالم میں اکثر و بیشتر خاندان کے قریبی افراد ہی ملوث ہوتے ہیں اور لاک ڈاؤن کی صورت حال میں وہ انہی کے ساتھ ایک ہی گھر پر قید ہو کر رہ گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (UNFPA) کو اندازہ تھا کہ کووِڈ-19 صنفی تشدد کے خاتمے کے لیے عالمی پیش رفت کو سخت نقصان پہنچائے گا۔
اسی لیے خواتین پر تشدد کے حوالے سے ڈیٹا اکٹھا کرنے کے کام میں تیزی لائی گئی اور اب یہ حقیقت عیاں ہو چکی ہے کہ خواتین پر تشدد اس سطح پر پہنچ چکا ہے کہ اسے عالمی سطح پر ہنگامی حالت قرار دینا چاہیے اور یہ صحت کے حوالے سے بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ کیونکہ خواتین پر تشدد کے اثرات محض انفرادی صحت پر ہی نہیں پڑتے بلکہ بحیثیتِ مجموعی معاشرے پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے پائدار ترقیاتی اہداف (SDGs) میں خواتین پر ہر قسم کے تشدد کا خاتمہ بھی شامل ہے اور اس حوالے سے جو بھی پیش رفت ہو رہی ہے، اس پر ڈیٹا اکٹھا کرنے کا مطالبہ ہوتا رہا ہے۔ مسئلے کی شدت اور اس کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کے لیے ڈیٹا اکٹھا کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ اسی کی مدد سے خواتین پر تشدد سے نمٹنے کے لیے اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایشیا: خواتین پر تشدد کا بڑھتا ہوا رجحان تمام حدیں پار کر گیا
اس حوالے پولیس، ہسپتالوں یا ہیلپ لائن کا ریکارڈ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن حقیقی صورت حال کی عکاسی بھی بہت مددگار ثابت ہو سکتی ہے اس لیے kNOwVAWdata کا قیام عمل میں آیا، ایک ایسا منصوبہ جو خواتین پر تشدد کے حوالے سے ڈیٹا اکٹھا کرنے اور اسے سمجھنے کا کام کرتا ہے۔
اس منصوبے کا آغاز 2016ء میں UNFPA کے دفتر برائے ایشیا و بحر الکاہل نے آسٹریلیا کے محکمہ امور خارجہ و تجارت کی مدد سے کیا تھا۔ یہ انفرادی طور پر کام کرنے والوں، تحقیقی ٹیموں اور ممالک کے لیے ایسا قابلِ بھروسا ڈیٹا جمع کرنا ممکن بناتا ہے، جن کی مدد سے اپنی داستان اور تجربات بتانے والی خواتین کو تحفظ دیا جا سکے۔
خواتین پر تشدد کی بیشتر اقسام کی جڑیں سماجی روایات میں ہیں جبکہ چند کی خواتین اور لڑکیوں کو اپنی ملکیت سمجھنے کی ذہنیت میں پیوست ہیں۔ kNOwVAWdata سروے خواتین پر تشدد کی مختلف اقسام اور ان کے مختلف پہلوؤں سے پردہ اٹھانے میں مدد دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وبا کے دوران ہر 10 میں سے 7 خواتین کو تشدد کا سامنا
خواتین پر تشدد کے حوالے سے سروے کرنا بیک وقت دل گرفتہ اور حوصلہ افزا تجربات کا حامل ہو سکتا ہے۔ مثلاً 2017ء میں منگولیا میں kNOwVAWdata ٹیم نے قومی ادارۂ شماریات کے ساتھ مل کر کام کیا تاکہ خواتین پر تشدد کے حوالے سے پہلا قومی سروے تیار کر سکیں۔ تب 15 ٹیمیں بنائی گئی تھیں، جنہوں نے سروے کے لیے ملک کے 21 صوبوں کے دُور دراز، دشوار گزار علاقوں میں پہنچنے کے مسائل اور سخت ترین موسمی حالات کا سامنا کیا اور 7,300 خواتین کے انٹرویوز کرنے میں کامیاب رہیں۔
ان میں سے ایک ٹیم میں بدما بھی شامل تھیں، جن کا کہنا تھا کہ وہ تشدد کی شکار اپنے جیسی خواتین کی مدد کرنا چاہتی ہیں۔
"جب میں اُن کی باتیں سنتی تو میری آنکھوں کے سامنے اپنی زندگی گھوم جاتی۔ کبھی کبھار جب خواتین جواب دیتے ہوئے ہچکچاتیں تو میں انہیں اپنی زندگی کی داستان سناتی اور پھر ان کی زبان بھی کھل جاتی۔”
سرکاری حکام کو خدشہ تھا کہ خواتین ذاتی اور حساس نوعیت کے سوالوں کے جوابات دینے میں ہچکچائیں گی، بالخصوص ایسے جو مقامی روایات کے برعکس لگتے ہیں، لیکن حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے۔ سری لنکا سروے ٹیم کی ایک رکن نے بتایا کہ ہم نے اپنے علاقے میں تقریباً 100 گھرانوں سے ڈیٹا اکٹھا کیا اور کسی ایک خاتون نے بھی جواب دینے سے انکار نہیں کیا۔
یہ بھی پڑھیں: صنفی تشدد کے خلاف شعور اجاگر کرنے کی 16 روزہ مہم
kNOwVAWdata منصوبہ اب تک ایشیا بحر الکاہل خطے میں 15 ممالک کو براہ راست تکنیکی رہنمائی فراہم کر چکا ہے اور اس کی بنیاد پر 9 سروے رپورٹس شائع ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ مزید 13 ممالک کو ڈیٹا سرگرمیوں کے حوالے سے رہنمائی دی جا چکی ہے
ان سرویز کی مدد سے ایک مرتبہ پھر یہ ناقابلِ تردید شواہد سامنے آئے ہیں کہ خواتین پر تشدد کے خاتمے کے لیے فوری عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ مثلاً منگولیا سروے نے ظاہر کیا کہ 31 فیصد خواتین کو زندگی میں کم از کم ایک بار اپنے شوہر یا ساتھی کے ہاتھوں جسمانی اور جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے؛ 43 فیصد اس تشدد کے نتیجے میں زخمی بھی ہوئیں اور 27 فیصد نے اس انٹرویو سے پہلے کبھی کسی کو اس تشدد کے بارے میں نہیں بتایا۔ 13 فیصد خواتین کو اس تشدد کا سامنا گزشتہ 12 ماہ کے دوران ہوا۔
اس سروے کے نتائج کی بنیاد پر حکومت نے 17 نئے کرائسس سینٹر بنائے تاکہ تشدد کا سامنا کرنے والی خواتین کی مدد کی جا سکے۔
جواب دیں