جلد گورا کرنے کا "مرض” اب پاکستان اور بھارت جیسے ممالک کے بعد اب افریقہ میں بھی عام ہو چکا ہے۔ میڈیا اور اشتہارات کے ذریعے تھوپے جانے والے حُسن کے معیارات کی وجہ سے اب سب گورے رنگ کے دلدادہ ہیں اور مرد تک ایسی مصنوعات استعمال کر رہے ہیں جبکہ خبردار کرنے کی تمام تر کوششوں اور شعور اجاگر کرنے کی مہمات کے باوجود رنگت گوری کرنے والی مصنوعات عام فروخت اور استعمال ہو رہی ہیں۔
یہ گھانا کا دارالحکومت اکرا ہے جہاں کی ایک رہائشی نا دی کہتی ہیں کہ یہاں تو حُسن کا اعلیٰ ترین معیار گورا رنگ سمجھا جاتا ہے اور خواتین تو ایک طرف، اب مرد تک اپنے رنگ کو گورا کرنے کے چکر میں پڑ گئے ہیں۔ گورا رنگ مرد ہوں یا عورتیں، عمر رسیدہ ہوں یا نوجوان، سب میں حُسن، کشش اور خود اعتمادی کی علامت بن گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج افریقہ کے کئی ملکوں میں رنگت گورا کرنا ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے اور اس میں اربوں ڈالرز کا سرمایہ لگا ہوا ہے۔
گوری رنگت کی مصنوعات میں ایسے اجزا شامل ہوتے ہیں جو جلد میں میلانن کی پیداوار روکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا کیمیائی مادّہ ہے جو جلد کی رنگت کو گہرا کرنے میں استعمال ہوتا ہے۔ ایسی مصنوعات میں استعمال ہونے والے اجزا میں سے ایک ہائیڈروکیونن ہے۔ باوجود اس کے کہ ایسی مصنوعات کے استعمال سے صحت پر انتہائی مضر بلکہ بھیانک اثرات مرتب ہوتے ہیں، مثلاً جلد کا کینسر، جگر اور اعصاب کو نقصان پہنچنا، لیکن ان کے استعمال میں کوئی کمی نظر نہیں آتی۔
یہ بھی پڑھیں: خواتین فٹ بالرز میں نسوانیت کی کمی ہوتی ہے، تنزانیہ کی صدر کا حیران کن بیان
آجکل گوری رنگت کے شائقین میں جو چیز سب سے زیادہ مقبول ہو رہی ہیں وہ ایسی گولیاں اور انجکشن ہیں جن میں گلوٹاٹیون جیسے اجزا شامل ہوتے ہیں، گو کہ یہ خاصے مہنگے ہیں۔
دارالحکومت اکرا میں جلدی امراض کے ایک معالج ایڈمنڈ ڈیلے کہتے ہیں کہ یہ جلد کی رنگت کو بدلنے کا تیز ترین طریقہ ہے کیونکہ انجکشن کے ذریعے یہ اجزا براہ راست نسوں میں داخل کیے جاتے ہیں اور یاد رکھیں یہ بہت خطرناک ہے۔ استعمال کرنے والوں کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ اتنا پیسہ جس چیز پر خرچ کر رہے ہیں، اس کی کیمیائی بناوٹ کیا ہے؟ یہ صحت کے لیے بڑا خطرہ کیونکہ اس سے جلد کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے، اس کے اجزا جگر کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں اور ان سے کینسر سمیت کئی قسم کے مہلک امراض ہو سکتے ہیں۔
اکتوبر میں گھانا کی فوڈ اینڈ ڈرگز اتھارٹی نے شہریوں کو گلوٹاٹیون کے استعمال سے خبردار کیا تھا لیکن ایسا ہی ایک قدم 2017ء میں ہائیڈروکیونن کی حامل تمام کریموں پر پابندی لگا کر اٹھایا گیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود ہائیڈروکیونن کی حامل مصنوعات کی ملک میں غیر قانونی ذرائع سے آمد میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ملک کے ڈھیلے ڈھالے قوانین کی وجہ سے پابندی اور انتباہ کے باوجود ایسی مصنوعات کا استعمال جاری و ساری ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اب ملک میں کئی آوازیں اٹھ رہی ہیں، جن میں سے ایک اسکن کیئر اسپیشلسٹ نکی بوا آمپونسم کی بھی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ
"آجکل ہر شخص جلد کو گورا کرنے کے چکر میں ہے، یہاں تک کہ پڑھے لکھے اور امیر افراد بھی ایسی حرکتیں کر رہے ہیں۔ یہ جنون اس حد تک پہنچ چکا ہے اب مائیں اپنے بچوں کو بھی ایسی کریمیں لگا رہی ہیں تاکہ ان کا رنگ گورا ہو جائے۔ اس لیے میں نے لوگوں کو اس کے خطرات سے آگاہ کرنے کے لیے شعور اجاگر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔”
جلد گورا کرنے کے خلاف انتباہ دینے اور شعور اجاگر کرنے کی مہم چلانے کے باوجود کے کئی لوگوں کا سمجھنا ہے کہ جب تک گوری رنگت کو حسن کا معیار سمجھا جاتا رہے گا، ان مصنوعات کا استعمال تھمنے والا نہیں ہے۔
جواب دیں