پاکستان میں 82 فیصد خواتین بینک کی سہولیات سے محروم

بینک اکاؤنٹ رکھنے والی پاکستانی خواتین کی تعداد 2020ء میں 18 فیصد تک پہنچی

پاکستان میں کم از کم 82 فیصد خواتین ایسی ہیں جو بینک کی سہولیات سے محروم ہیں یعنی نہ صرف وہ بنیادی مالیاتی خدمات (فائنانشل سروسز) نہیں رکھتیں بلکہ ان کے سماجی حقوق بھی خطرے کی زد میں ہیں۔

فائنانشل الائنس فار ویمن (FAW) کی سی ای او انیز مرے کے مطابق پاکستان میں بینک اکاؤنٹ تک رسائی رکھنے والی خواتین کی تعداد 2020ء میں بڑھ کر 18 فیصد تک جا پہنچی ہے، جو 2008ء میں صرف 4 فیصد تھی۔

پاکستان میں مالیاتی شمولیت (فائنانشل انکلوژن) اور اس کے صنفی پہلوؤں کے حوالے سے ایک ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے مرے نے کہا کہ گو کہ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے لیکن اب بھی عالم یہ ہے کہ 82 فیصد خواتین باضابطہ بینک اکاؤنٹ نہیں رکھتیں۔

یہ بھی پڑھیں: خواتین کی مالیاتی شمولیت بڑھانے کا ہدف، اڑان کے لیے 30 لاکھ ڈالرز کا سرمایہ

تحقیق کے مطابق پاکستانی مارکیٹ میں خواتین کی وجہ سے 114 ارب روپے کے مواقع موجود ہیں کیونکہ مرے کے مطابق خواتین کی مالیاتی طور پر شمولیت ایک تسلیم شدہ امر ہے اور اسے گھرانوں کو غربت سے نکالنے کے لیے طاقتور ترین عناصر میں شامل کیا جاتا ہے۔ "بہتر پالیسی سازی اور کمرشل بنیادوں پر خواتین کی مالیاتی شمولیت کی حوصلہ افزائی، اعداد و شمار اور اس معاملے کا وسیع ادراک بہت اہمیت رکھتا ہے۔”

اس موقع پر ڈپٹی گورنر بینک دولت پاکستان سیما کامل نے کہا کہ دسمبر 2020ء تک پاکستان میں کُل 8.2 کروڑ بینک اکاؤنٹس تھے، جن میں سے 2.1 کروڑ خواتین کے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی 33 فیصد بالغ خواتین بینک اکاؤنٹس رکھتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: صدر عارف علوی کا خواتین کی مالیاتی شمولیت پر زور

انہوں نے کہا کہ خواتین کی مالیاتی شمولیت نیشنل فائنانشل انکلوژن اسٹریٹجی (NFIS) کی اہم ترجیحات میں سے ایک ہے اور حال ہی میں تشکیل دی گئی بینکنگ آن ایکوالٹی پالیسی سے اسے تقویت ملی ہے۔ یہ پالیسی ستمبر میں تشکیل دی گئی تھی اور اس سے پالیسی سازی اور مالیاتی اداروں کے عوامل میں صنفی تناظر شامل کیا گیا ہے۔

"اس میں مالیاتی اداروں میں صنفی تنوّع (diversity) کا فروغ، خواتین کو ذہن میں رکھتے ہوئے بنائی گئی مصنوعات متعارف کروانا اور صنفی اور مالیاتی بنیادوں پر پالیسی فورم کا قیام شامل ہیں”

 

سیما کامل نے کہا کہ "صنفی بنیاد پر ڈیٹا جمع کرنا اور مالیاتی اداروں کے لیے اہداف مقرر کرنا بھی اس پالیسی کا ایک اہم حصہ ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ یہ تحقیق اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی صنفی ڈیٹا جمع کرنے پر کی کوششوں کو مکمل کرے گی اور یکساں بینکاری پر زور دے گی۔”

چیئرپرسن "کار انداز” ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا کہ خواتین کی مالیاتی شمولیت محض سماجی و اخلاقی بنیادوں پر ہی نہیں بلکہ اس امر پر بھی ہے کہ خواتین سروسز فراہم کرنے والے اداروں کے لیے کاروباری لحاظ سے ایک اہم موقع بھی ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں صارفی اخراجات میں خواتین کا حصہ 20 ٹریلین ڈالرز سے بھی زیادہ ہے اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے اداروں کو چلانے میں خواتین ایک نمایاں اور اہم قوت ہوتی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے