جمعرات کو دنیا بھر میں خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جائے گا، جب ہمیں یاد کروایا جائے گا کہ خواتین پر بڑھتا ہوا تشدد بالآخر زن کشی (femicide) کی طرف جا تا ہے، یعنی جان بوجھ کر ان کا قتل، محض اس لیے کہ وہ ایک عورت ہے۔
اسرائیل میں ذرائع ابلاغ کے پیدا کردہ تصور کے برعکس ملک میں زن کشی کی شرح دیگر ممالک کے برعکس کم ہے، لیکن اتنا چھوٹا ملک ہونے کی وجہ سے ہر قتل ایک سانحہ بن کر سامنے آتا ہے۔
سال 2021ء میں اب تک ایسے 15 قتل ہو چکے ہیں، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں کم ہیں۔ ان میں سے 10 شوہر یا قریبی ساتھی کے ہاتھوں یا پھر خاندان کے دیگر اراکین نے کیے ہیں کہ جنہیں غیرت کے نام پر قتل کہا جاتا ہے۔
تمام ہی مقتول خواتین اپنے قاتلوں کو جانتی تھیں۔ تقریباً نصف واقعات یہودیوں کے ہاتھوں ہوئے، نصف اسرائیلی عربوں سے۔ ایک تہائی خواتین کو گولی ماری گئی، ایک چوتھائی کا گلا گھونٹا گیا اور ایک چوتھائی سے زیادہ کو خنجر گھونپے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: آذربائیجان، نوعمر لڑکی کی خودکشی سے گھریلو تشدد عوامی موضوع بن گیا
چند حلقے کہتے ہیں کہ زن کشی کے اعداد و شمار قابلِ بھروسا نہیں، اور یہ کافی وسیع اصطلاح ہے لیکن اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ خاتون کو اس کی صنف کی وجہ سے قتل کر دیا جائے۔ اسرائیل میں اس سال اسرائیلی عرب برادری میں تشدد اور جرائم کی شرح میں زبردست اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ 100 سے زیادہ اسرائیلی عرب گینگ وار میں مارے گئے ہیں۔ زیادہ تر قتل مردوں کے ہوئے ہیں لیکن کچھ میں خواتین بھی ہدف پر تھیں یا نشانہ بن گئیں۔
غیر صنفی بنیادوں پر خواتین کا قتل زن کشی کے اعداد و شمار میں شامل نہیں کیا جاتا، جو اسرائیل آبزرویٹری آن فیمی سائیڈ نومبر 2020ء سے جمع کر رہی ہے۔ ادارے کا ہدف غیر جانب دارانہ طریقے سے ملک میں زن کشی کے واقعات کی نگرانی ہے۔
لیکن بسا اوقات زن کشی کی تفہیم بھی اعداد و شمار میں کمی بیشی کا باعث بنتی ہے، جب ابتدائی طور پر حادثہ یا خود کشی لگنے والا واقعہ بالآخر زن کشی کا معاملہ نکلتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فلسطین کی خواتین، اسرائیل کے خلاف مزاحمت میں پیش پیش
حال ہی میں ایسے دو واقعات اسرائیل میں سامنے آئے ہیں۔ ایک 94 سالہ ڈراما نگار جنہوں نے ایک سال قبل اپنی اہلیہ کے انتقال کی خبر دی تھی، کو اس شبے میں گرفتار کیا گیا ہے کہ انہوں نے حکام کو خود کشی کی اطلاع دینے سے پہلے ان کا گلا گھونٹ کر انہیں مارا تھا۔ اس کے بعد 50 سالہ ایک خاتون کو اپنی 90 سالہ ماں کے قتل کے شبہ میں گرفتار کیا گیا کہ جس کا معاملہ ابھی تک عدالت نہیں پہنچا۔
شوہر یا قریبی ساتھی کی جانب سے قتل زن کشی میں سب سے عام ہے اور صنف کی بنیاد پر خواتین کے قتل کی شرح میں کمی کا کوئی اشارہ نہیں ملتا۔ میکسیکو میں رواں سال جنوری سے ستمبر کے دوران 762 خواتین کا قتل ہوا، یعنی روزانہ تقریباً 3 خواتین کا قتل۔
گزشتہ سال اسرائیل میں 19 خواتین کا قتل ہوا تھا۔ یہ وہ سال تھا جب کرونا وائرس کی وجہ سے مکمل لاک ڈاؤن لگا اور پہلے مہینے یعنی مارچ میں ہی 5 خواتین کا قتل ہوا، اور ٹھیک ایک سال بعد یعنی رواں سال مارچ میں جبکہ کووِڈ-19 کی پابندیاں بڑی حد تک ختم ہو گئی تھیں، ایک بھی ایسا قتل سامنے نہیں آیا۔ اس کی وجہ یہ ہوگی کہ لاک ڈاؤن کے دوران خواتین اپنے سماجی حلقوں، خاندان اور مدد کرنے والی ساتھیوں سے کٹ گئیں؛ بسا اوقات شوہر یا ساتھی کی جانب سے اسمارٹ فون کا استعمال کرنے یا دوستوں سے رابطہ کرنے سے روکا گیا۔ حالات سخت ہو گئے اور یوں تشدد میں اضافہ ہوا۔ دارامان بند ہونے کی وجہ سے خواتین اور بچوں کو گھروں کو بھیجا گیا، جہاں ان پر تشدد کی نئی لہر کا آغاز ہوا۔ دو ایسے واقعات بھی سامنے آئے کہ ظلم کرنے والے شوہروں کو قید خانوں میں کرونا وائرس پھیلنے کے خطرے کے پیش نظر رہا کر دیا گیا اور انہوں نے گھر جا کر اپنی بیویوں کو قتل کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: فرانس، ہر تین دن میں ایک خاتون کا موجودہ یا سابق ساتھی کے ہاتھوں قتل
رواں سال زن کشی میں کمی کی ایک وجہ تو کرونا وائرس لاک ڈاؤن کا خاتمہ ہے اور دوسری وجہ اسرائیلی میڈیا میں بڑے عرصے کے بعد بالآخر زن کشی کی خبروں کی کوریج ہونا ہے۔
رواں سال شیرا ایساکوف کی خبر بڑے پیمانے پر نشر ہوئی کہ جن پر ان کے شوہر نے شیر خوار بچے کے سامنے خنجر کے 20 وار کیے، لیکن وہ بچ گئیں۔ ایساکوف نے اس معاملے پر خود سامنے آنے کا فیصلہ کیا، اس امید کے ساتھ کہ ان کی اس دلیری کا نتیجہ زن کشی کے خاتمے کی صورت میں نکلے گا۔
اب ذرا ایک بُری خبر۔ رواں سال اسرائیل میں ہونے والے زن کشی کے 36 فیصد واقعات دراصل مادر کشی یعنی ماں کا قتل ہیں۔ پانچ واقعات ہو سکتا ہے بہت بڑی تعداد نہ لگیں، لیکن ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاشرہ کس رخ پر جا رہا ہے کہ ماں کے قتل سے بھی دریغ نہیں کیا جا رہا۔ ایسے واقعات جو کوئی داستان لگتے ہیں، فلموں اور ڈراموں کی باتیں لگتے ہیں، در حقیقت پیش آ رہے ہیں۔
گزشتہ سال پیش آنے والے 21 واقعات میں سے مادر کشی کا واقعہ صرف ایک تھا، لیکن رواں سال اب تک 14 میں سے پانچ واقعات میں ماؤں کو قتل کیا گیا ہے۔
مستقبل میں جب خواتین پر تشدد کے خاتمے کی بات ہوگی تو اس پر بھی ہونی چاہیے کہ اس ماں کا کیا قصور تھا کہ جس نے ایک معصوم بچے کو جنم دیا اور وہ اس کا قاتل بن گیا۔
جواب دیں