ریپ کے مقدمے کے ملزمان بری، بنگلہ دیش میں مظاہرے

ریپ کے مقدمات میں ملزمان کو سزا ملنے کی شرح 1 فیصد سے بھی کم

خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے اس وقت ڈھاکا، بنگلہ دیش کی سڑکوں پر ہیں کہ جہاں ایک عدالت نے 2017ء میں دو خواتین کے ساتھ مبینہ طور پر گینگ ریپ کرنے والے پانچ ملزمان کو بری کر دیا ہے۔

جج کا کہنا تھا کہ پولیس شواہد پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔ واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں ریپ کے مقدمات میں ملزمان کو سزا ملنے کی شرح 1 فیصد سے بھی کم ہے۔

جج مسمات قمر النہار نے 11 نومبر کو مظلوم خواتین ہی کی سرزنش کی تھی کہ انہوں نے واقعے کی اطلاع ایک ماہ بعد کیوں دی اور حیران کن طور پر پولیس کو تجویز کیا کہ وہ ریپ کے کسی بھی واقعے کا پرچہ نہ کاٹے، جسے گزرے ہوئے 72 گھنٹے سے زیادہ ہو چکے ہوں۔ اس پر چیف جسٹس سید محمود حسین نے جج کو معطل کر دیا اور وزیر قانون انیس الحق نے کہا کہ جج مسمات قمر النہار کا مشاہدہ مکمل طور پر غیر قانونی ہے، کسی بھی فوجداری معاملے میں پرچہ کاٹنے کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں۔”

یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش، صرف ایک مہینے میں 199 خواتین اور 153 لڑکیاں تشدد کا نشانہ

ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا میناکشی گانگلی نے کہا کہ "وزارت قانون کی وضاحت کہ ریپ کے مقدمات کی تحقیقات میں وقت کی کوئی قید نہیں، ایک مثبت قدم ہے۔ بنگلہ دیش میں پہلے ہی ریپ کے معاملات میں انصاف پانا ناممکن ہے اور اس میں 11 نومبر جیسا کوئی فیصلہ معاملات کو مزید گمبھیر بنا دے گا۔”

دو ملزمان پر الزام تھا کہ انہوں نے 2017ء میں ڈھاکا کے ایک ہوٹل میں دو خواتین کے ساتھ ریپ کیا تھا جبکہ تین دیگر مردوں کو اس جرم میں اعانت کرنے کے الزام کا سامنا تھا۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق جج مسمات قمر النہار نے اس میڈیکل رپورٹ کی طرف اشارہ کیا کہ جس میں مظلوم خواتین پر الزام لگایا گیا تھا کہ "وہ جسمانی تعلقات کی عادی تھی اور ان کی جسمانی حالت بھی ایسی تھی جو مستقل جنسی تعلقات رکھنے والیوں کی ہوتی ہے۔”

یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش میں ریپ: جنسی تشدد کی ایک وباء

مظلوم خواتین کو اس طرح بیان کرنے پر پارلیمان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ شواہد ایکٹ 1872ء کی شق ‎155(4) کو منسوخ کرے، جو کہتی ہے کہ جب کسی شخص کو ریپ یا عصمت دری کی کوشش پر مقدمے کا سامنا ہو تو اسے عموماً بد کردار قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس قانون کی وجہ سے وکلائے دفاع خواتین کی کردا کشی کرتے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ اس شق کے خاتمے کے لیے تجاویز پارلیمان میں جلد پیش کی جانی چاہئیں۔

یہ فیصلہ ملک میں خواتین اور لڑکیوں پر جنسی تشدد میں بے پناہ اضافے سے نمٹنے کے لیے ہونے والے مظاہروں کے ٹھیک ایک سال بعد سامنے آیا ہے۔

جنوری 2020ء میں ہائی کورٹ نے وزارت قانون کو حکم دیا تھا کہ وہ ایک کمیشن ترتیب بنائے تاکہ ملک میں بڑھتے ہوئے جنسی تشدد سے نمٹا جا سکے۔ تقریباً دو سال بعد بھی یہ تک نہیں معلوم کہ ایسا کوئی کمیشن وجود بھی رکھتا ہے یا نہیں۔ حکومت اب تک جنسی ہراسگی کے خلاف قوانین کا وعدہ پورا نہیں کر پائی اور نہ ہی گواہوں کو تحفظ فراہم کر پائي ہے۔ ایسی کسی صورت حال کا سامنا کرنے والی مظلوم خواتین بدستور  بدنامی کا داغ لیے پھرتی ہیں اور انہیں ذہنی و نفسیاتی صحت کی سہولیات تک بھی رسائی حاصل نہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ بنگلہ دیش حکومت کو عدالت کے احکامات کے مطابق جنسی تشدد کے خلاف ایک کمیشن ترتیب دینا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: ایران کا نیا قانون خواتین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، ہیومن رائٹس واچ

‏2018ء میں بنگلہ دیش کی ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ پولیس نے ایک خاتون کی شکایت پر پرچہ کاٹنے میں تاخیر کی کہ جنہیں 2015ء میں ڈھاکا کی ایک بس میں ریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا اور عدالت نے ساتھ ہی ریپ کے مقدمات سے نمٹنے کے لیے رہنما ہدایات جاری کی تھیں۔ ان میں پرچہ کٹتے وقت کسی سماجی کارکن کی موجودگی، اس کام کے لیے تھانوں میں خاتون افسر کی تعیناتی، مظلوم خاتون اگر معذور ہوں تو ان کی مدد کرنا اور بغیر کسی موزوں وجہ ہے پرچہ کاٹنے میں ناکامی پر پولیس اہلکاروں کو سزا دینے کا ذکر تھا۔ لیکن ان رہنما ہدایات پر شاید ہی عمل کیا جاتا ہے اور ایسا کوئی نظام نظر نہیں آتا جو پولیس کا احتساب کرے۔

ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ ضروری ہے کہ حکومت قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدالتوں کے اہلکاروں کو صنفی بنیاد پر تشدد کے حوالے سے تربیت دے۔ اس کے علاوہ نفسیاتی مدد کے لیے مناسب اور قابلِ رسائی مواقع فراہم کرے اور ہراسگی کے خلاف قانون منظور کرے، گواہوں کو تحفظ دے اور امتیازی قانون میں اصلاحات کرے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے