لڑکیوں کی تعلیم کی راہ میں حائل رکاوٹیں دُور کرتی افغان خاتون

رواں سال جب طالبان نے ایک مرتبہ پھر افغانستان کا اقتدار سنبھالا تو انہوں نے خواتین کو ایک مرتبہ پھر تعلیمی اداروں سے دُور کر دیا۔ اس معاملے کا کوئی حل نہ دیکھتے ہوئے بیرونِ ملک مقیم ایک افغان خاتون نے خود قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ انجلا غیور کا آن لائن اسکول اب تقریباً 1 ہزار طالبات رکھتا ہے اور 400 سے زیادہ رضاکار اساتذہ ان کے ساتھ ہیں۔

انجلا صرف آٹھ سال کی تھیں جب 1992ء میں افغانستان میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا تھا۔ ان کا خاندان ہرات میں اپنے گھر سے نکل کر ایران ہجرت کر گیا اور اگلے پانچ سال تک انجلا اسکول نہیں جا پائی تھیں، اپنے خاندان کےعارضی ویزا اسٹیٹس کی وجہ سے۔

انجلا یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ

"یہ اس وقت بہت عام تھا کہ ایران جانے والے افغان مہاجرین کے بچے اسکول نہیں جاتے تھے، کیونکہ ان کے پاس درکار دستاویزات نہیں ہوتی تھیں۔”

پانچ سال بعد بالآخر ان کے والد دستاویزات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور وہ ایران میں تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہوئیں۔ 13 سال کی عمر میں انہیں اندازہ ہوا کہ انہیں کچھ کرنا چاہیے۔ ہ روز اسکول کے بعد انجلا گھر آتیں اور 14 دیگر افغان بچوں کو پڑھاتیں، ایسے بچے جو اسکول نہیں جا سکتے تھے۔ انجلا کے والد ایک مالی تھے اور وہ باغیچے میں اپنی مختصر سی کلاس میں ان بچوں کو سبق پڑھاتیں۔

یہ بھی پڑھیں: خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا جائے، افغانستان میں خواتین کا غیر معمولی مظاہرہ

چند سال بعد افغانستان میں طالبان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ انجلا افغانستان واپس آئیں اور یہاں سیکنڈری اسکول کی ٹیچر بن گئیں، جس کے بعد وہ نیدرلینڈز اور بالآخر برطانیہ منتقل ہو گئیں۔

بیرون ملک مقیم افغان باشندوں کی طرح انجلا بھی چند ماہ کے دوران ملک میں پیش آنے والے واقعات پر پشان ہیں۔ 20 سال کی جنگ کے بعد امریکی انخلا سے طالبان ایک مرتبہ پھر اقتدار پر قابض ہو گئے۔

ایسا لگتا تھا کہ خواتین کی تعلیم کے حوالے سے دو دہائیوں میں ہونے والی پیش رفت ختم ہو جائے گی۔ طالبان کا دعویٰ ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم اور روزگار پر پابندی عارضی ہے جب تک کہ ان کے لیے کام اور تعلیم کے ماحول کو محفوظ نہیں بنایا جاتا۔ لیکن عارضی ہی سہی لیکن لڑکیوں کا یکدم تعلیم کے مواقع سے محروم ہو جانا انجلا کو پریشان کرنے کے لیے کافی تھا، انہیں اپنے ایران میں گزارے گئے ابتدائی پانچ سال یاد آ گئے۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے تین ماہ بعد بھی صورت حال میں کوئی بہتری نہ آنے پر انہوں نے خود قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا۔

انجلا نے آن لائن ہرات اسکول قائم کیا، جو افغان خواتین اور لڑکیوں کے لیے تعلیم حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ انہوں نے تجربہ کار اساتذہ سے انسٹاگرام پر مدد طلب کی اور اب تک تقریباً 400 رضاکار ان کے پروگرام کا حصہ بن چکے ہیں۔ ٹیلی گرام یا اسکائپ کے ذریعے وہ 170 مختلف آن لائن کلاسز لیتے ہیں، جس میں ریاضی سے لے کر موسیقی اور کھانے پکانے سے لے کر مصوری تک سب شامل ہیں۔ زیادہ تر اساتذہ ایران میں ہیں اور وہ دو سے آٹھ گھنٹے روزانہ کام کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں بے امنی، خواتین اور بچوں کی اموات میں اضافہ

انجلا کہتی ہیں کہ "مجھے لگتا ہے کہ یہ اسکول میرے مصائب، تکالیف اور تجربات کا نتیجہ ہے۔ ہمارا نعرہ ہے، بندوق کے بجائے قلم۔”

مل کر یہ رضاکار تقریباً 1,000 طلبہ کی مدد کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک 13 سالہ نسرین ہیں جو کابل میں اپنی چار بہنوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ طالبان کے آنے کے بعد سے سات سال سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کے اسکول آنے پر پابندی ہے اس لیے ان کی تمام بہنوں کو تعلیم کا سلسلہ روکنا پڑا ہے۔

یہ بہنیں گھر پر تعلیم جاری رکھنے کے لیے سخت محنت کر رہی تھیں لیکن ان کی دو بڑی بہنوں کے لیے معاملہ سب سے زیادہ مشکل تھا، کیونکہ وہ یونیورسٹی میں طب اور انجینئرنگ پڑھ رہی تھیں۔

لیکن اب ان لڑکیوں کو انجلا کے آن لائن اسکول کی صورت میں امید کی ایک کرن نظر آئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: لڑکیوں کی ثانوی تعلیم کا سلسلہ جلد بحال کیا جائے گا، طالبان

حالیہ چند ہفتوں کے دوران ملک کے شمالی علاقوں میں طالبات کے حوالے سے چند مثبت خبریں آئی ہیں کہ جہاں لڑکیاں 5 صوبوں میں سیکنڈری اسکولوں میں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ نجی جامعات کی طالبات کو بھی تعلیمی اداروں میں آنے کی اجازت مل گئی ہے، البتہ سرکاری جامعات میں نہیں۔

لیکن اب بھی ملک بھر میں طالبات کی اکثریت اب بھی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں نہیں آ سکتی۔

خواتین اساتذہ، مثلاً نسرین کی والدہ، کو بھی گھر پر رہنے کا حکم دیا گیا ہے اور ابھی تک ایسی خواتین کی کام پر واپسی کا کوئی منصوبہ سامنے نہیں آیا۔

اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق کابل میں 70 فیصد اساتذہ خواتین ہیں۔ اس لیے اگر طلبہ کی تعلیم جاری بھی رہے تو تدریسی عملے کی شدید قلت کا سامنا رہے گا۔

افغانستان کی دوبارہ آمد سے پہلے ہی افغانستان میں تعلیم کے مسائل گمبھیر تھے۔ 2019ء میں وزارت تعلیم نے کہا تھا کہ 15 سال سے زیادہ عمر کی ملک کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی ان پڑھ ہے۔

اب لڑکیوں کی اکثریت کے گھروں تک محدود رہنے کی وجہ سے خدشہ ہے کہ بدقسمتی سے اس شرح میں مزید اضافہ ہوگا۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے