ایک سال میں 62 صحافیوں کا قتل، خواتین صحافیوں کو لاحق نئے خطرات

تحقیق کے مطابق 73 فیصد خواتین صحافیوں کو اپنے کام کی وجہ سے آن لائن دھمکیوں اور تحقیر و تذلیل کا سامنا

گزشتہ سال 62 صحافیوں کو محض اپنی ذمہ داریاں انجام دینے کی وجہ سے قتل کیا گیا۔ انہی جرائم کی وجہ سے رواں سال صحافیوں کے خلاف جرائم کی کھلی چھوٹ کے خاتمے کے دن پر نظامِ انصاف کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے، نہ صرف قاتل کو انصاف کے کٹہرے میں لانے بلکہ دھمکیوں کے معاملات بھی نمٹانے کے لیے۔

اس موقع پر اپنا پیغام جاری کرتے ہوئٰ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے کہا کہ کئی صحافی تنازعات کی کوریج کے دوران اپنی جانوں سے گئے، لیکن گزشتہ چند سالوں میں کشیدہ علاقوں سے باہر بھی میڈیا سے وابستہ افراد کے قتل کی شرح بڑھتی ہے۔

"کئی ملکوں میں صرف کرپشن، اسمگلنگ، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں یہاں تک کہ ماحولیاتی مسائل کی تحقیقات کرنے پر بھی صحافیوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔”

 

گوتیریس نے کہا کہ صحافیوں کے خلاف جرائم کے مجموعی طور پر معاشرے پر بدترین اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ اس سے لوگ بہتر فیصلہ کرنے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ صحافیوں کو کئی خطروں کا سامنا ہے جن میں اغوا، تشدد اور حبسِ بے جا سے لے کر ان کے خلاف گھناؤنی مہمات اور انہیں ہراساں کرنا تک شامل ہے، خاص طور پر آن لائن دنیا میں۔

کووِڈ-19 ایک طرف اور غلط معلومات پھیلانے کی وبا دوسری طرف، جس نے ظاہر کیا کہ حقائق تک رسائی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ جب معلومات تک رسائی خطرے کی زد میں آتی ہے تو یہ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے لیے ایک خطرناک پیغام ہوتی ہے۔

گوتیریس نے خاص طور پر خواتین صحافیوں کو درپیش خطرات کے بارے میں بھی بات کی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی غیر محفوظ خواتین صحافی

اقوام متحدہ کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق 73 فیصد خواتین صحافیوں کو اپنے کام کی وجہ سے آن لائن دھمکیوں اور تحقیر و تذلیل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

سیکریٹری جنرل نے زور دیا کہ دنیا بھر میں اقوام متحدہ کی رکن ریاستیں صحافیوں کے ساتھ کھڑی ہوں، اور ان کے خلاف جرائم کی تحقیقات کے لیے سیاسی ارادہ ظاہر کریں۔

یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل اودرے ازولے نے اپنے پیغام میں کہا کہ بیشتر صحافیوں کے لیے سچ کی قیمت بہت بھاری ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب صحافی پر حملہ کرنے والے کو کھلی چھوٹ دی جاتی ہے تو انصاف اور تحفظ کا نظام سب کے لیے ناکام ہو جاتا ہے۔

"صحافیوں کا تحفظ اور ان کے خلاف جرائم کے مرتکب ہونے والے افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ہر ریاست کی ذمہ داری ہے۔ جلد اور مکمل انصاف کے معاملے میں خاص طور پر ججوں اور سرکاری وکلا کا اس معاملے میں اہم کردار ہے۔”

اس دن کے موقع پر فرانس، یونان اور لتھووینیا کے مستقل مندوبین اور گروپ آف فرینڈز فار دی پروٹیکشن آف جرنلسٹس نے اقوام متحدہ کے دفتر میں ایک تقریب کا اہتمام کیا جس کا موضوع خواتین صحافیوں کے خلاف نفرت انگیز مہمات کا مسئلہ اور ان کا تحفظ تھا۔

اس موقع پر جنرل اسمبلی کے صدر عبد اللہ شاہد نے اپنا وڈیو پیغام بھی دیا کہ جس میں انہوں نے رکن ریاستوں پر خواتین صحافیوں کے تحفظ پر زور دیا۔

"اس کے مقابلے پر کھڑا ہونا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔ صحافت کو خواتین کے لیے محفوظ تر بنانے کو یقینی بنائیں اور ان کو ہراساں کرنے، دھونس دھمکی دینے اور صنف کی بنیاد پر انہیں ہدف کا نشانہ بنانے کا عمل ختم ہونا چاہیے۔”

انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کے ماہرین پر مشتمل ایک گروپ نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ صحافیوں کے تحفظ کو درپیش خطرات ڈجیٹل دور میں نئی شکلیں اختیار کر چکے ہیں، خاص طور پر خواتین صحافیوں کے خلاف۔

ان کے مطابق آن لائن ہونے والے حملوں کی تحقیقات کرنے اور ان سے نمٹنے میں کوتاہی کے خواتین صحافیوں پر حقیقی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ان کی ذہنی و جسمانی صحت متاثر ہوتی ہے۔

چند معاملات میں تو آن لائن دھمکیاں حقیقی تشدد یہاں تک کہ قتل پر بھی منتج ہوتی ہے مثلاً بھارت میں خاتون صحافی گوری لنکیش اور مالٹا کی صحافی ڈیفنی گیلیزیا کے قتل کے معاملات۔

ایک تیزی سے ڈجیٹل ہوتی دنیا میں تمام صحافیوں کو اپنا کام کسی خطرے، دھونس دھمکی یا آن لائن یا آف لائن تشدد کے خوف سے آزاد ہو کر کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے