خواتین کی مالیاتی شمولیت بڑھانے کا ہدف، ‘اڑان’ کے لیے 30 لاکھ ڈالرز کا سرمایہ

کینیڈا میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک ایک انوسٹمنٹ بینکر کے طور پر کام کرنے کے بعد حلیمہ اقبال 2017ء میں پاکستان واپس آ گئیں اور یہاں آتے ہی انہیں جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ خواتین کو مالیاتی خدمات (فائنانشل سروسز) تک رسائی میں کتنی مشکلات کا سامنا ہے۔ کہتی ہیں کہ

"مجھے بنیادی بینک اکاؤنٹ کھولنے میں بھی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مجھے اس میں ساڑھے تین مہینے لگ گئے۔”

اس واقعے کے بعد حلیمہ اقبال نے تحقیقات کا آغاز کیا کہ پاکستانی خواتین کس طرح بچت کرتی یا قرضہ لیتی ہیں۔

انہی دنوں میں ان کی ملاقات پروڈکٹ ڈیزائنر اور انٹریپرینیور فروہ ٹپال سے ہوئی، جو اسپین سے واپس پاکستان آئی تھیں، اور پھر دونوں نے مل کر 2018ء میں ‘اڑان’ کی بنیاد رکھی جس کا مقصد خواتین کو مالیاتی خدمات تک رسائی میں مدد دینا تھا۔ اسی اسٹارٹ اَپ نے آج 30 لاکھ ڈالرز کی سرمایہ کاری ملنے کا اعلان کیا ہے، جس میں زین کیپٹل اور ویو میکر پارٹنرز پیش پیش ہیں۔

یوں ‘اڑان’ کی سرمایہ کاری اب 40 لاکھ ڈالرز سے تجاوز کر چکی ہے۔ حلیمہ اور فروہ کا کہنا ہے کہ وہ فن ٹیک (فائنانشل ٹیکنالوجی) کے شعبے میں پاکستان کی پہلی خواتین انٹریپرینیورز ہیں، جو کسی سیڈ راؤنڈ تک پہنچی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایک لڑکی کا خواب جو کئی خواتین کو با اختیار بنا رہا ہے

حلیمہ کا کہنا ہے کہ ہمارے لیے ایک موقع تھا کہ ہم پاکستان میں بچت (سیونگز) کے شعبے اور غیر رسمی معیشت کو سمجھیں اور اس حوالے سے کچھ کریں۔

‏’اڑان’ نے ROSCAs یعنی Rotating Credit and Savings Associations کے ذریعے کام کا آغاز کیا جنہیں ہم عام طور پر کمیٹی کہتے ہیں۔ اس میں لوگ ایک جگہ پیسے اکٹھا کرتے ہیں اور ہر مہینے یہ پیسے اس کمیٹی میں شامل کسی ایک رکن کو دیے جاتے ہیں۔ مزید مالیاتی خدمات فراہم کرنا بھی ‘اڑان’ کا ہدف ہے، جس میں ایک ڈجیٹل بینک بنانے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔

‏’اڑان’ کی تحقیق کے مطابق صرف 7 فیصد پاکستانی خواتین ایسی ہیں جو بنیادی مالیاتی خدمات رکھتی ہیں، یعنی کم از کم ان کا ایک بینک اکاؤنٹ ضرور موجود ہے۔ کئی خواتین کے لیے مالیاتی خدمات تک رسائی کی راہ میں سفری اور سماجی رکاوٹیں ہیں۔

حلیمہ کہتی ہیں کہ جب کوئی خاتون بینک جاتی ہیں تو ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کو بینک اکاؤنٹ کی ضرورت ہی کیا ہے؟ خاص طور پر اگر آپ فری لانسر ہیں یا مائیکرو انٹریپرینیور ہیں یا ملازمت نہ کرنے والی گھریلو خاتون ہیں تو یہ سوالات بہت زیادہ ہو جاتے ہیں۔ خواتین کو اپنے شوہر یا مرد رشتہ دار کی معلومات فراہم کرنے کو کہا جاتا ہے، جو ان کے ضامن بنیں۔ اس طرح کی پابندیوں نے خواتین کو روک رکھا ہے حالانکہ ملک کی معاشی نمو میں برابر کا حصہ ڈالنے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: صدر عارف علوی کا خواتین کی مالیاتی شمولیت پر زور

روایتی طور پر کمیٹیاں مقامی برادریوں یا قریبی افراد ہی میں ڈالی جاتی ہیں، مثلاً خاندان کے اراکین، دوست یا پڑوسی مل کر ڈالتے ہیں، پھر ہر شخص ہر مہینے مخصوص رقم پاتا ہے۔ ہر مہینے جمع ہونے والے پیسے کسے ملیں گے، اس کا فیصلہ کمیٹی کرتی ہے، بسا اوقات ووٹ کے ذریعے یا پھر قرعہ اندازی سے۔

حلیمہ اور فروہ نے کہ وہ ROSCAs سے ہی آغاز لیں گی کیونکہ ہر کوئی اس کے بارے میں جانتا ہے اور بڑی تعداد میں لوگ ایسی کمیٹیوں میں حصہ لیتے رہتے ہیں۔ ‘اڑان’ کی تحقیق کے مطابق پاکستان کی تقریباً 41 فیصد آبادی نے کسی نے کسی کمیٹی میں حصہ لیا ہے اور سالانہ بنیادوں پر 5 ارب ڈالرز اس طریقے سے گردش کرتے ہیں۔

حلیمہ اقبال کہتی ہیں کہ جس بڑے پیمانے پر کمیٹیوں کا استعمال ہوتا ہے اور اس سے صارفین کو جو سہولت ملتی ہے، وہ حیرت انگیز ہے۔ یہ صارف کے لیے اور ساتھ ساتھ کاروباری برادری کے لیے بھی گویا سونے کی کان ہے۔

‏’اڑان’ ROSCAs کو رسمی صورت دیتی ہے، جس کے تحت پانچ ماہ یا دس ماہ کے پلانز پیش کیے جاتے ہیں۔ ‘اڑان’ کی ROSCAs اور عام کمیٹیوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ان میں صارف خود منتخب کرتا ہے کہ اسے کون سے مہینے میں پیسے چاہئیں کیونکہ ایپ کا ٹریژری مینجمنٹ بیک اینڈ اراکین کی ضروریات اور ادائیگی کی صلاحیت کی بنیاد پر کمیٹیاں مرتب کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: خواتین کی خود مختاری کے لیے فوڈ پانڈا اور ویمن آن ویلز شانہ بشانہ

‏’اڑان’ کے ذریعے ROSCAs میں حصہ لے کر صارفین کے پاس اپنے اریب قریب کے افراد سے ہٹ کر بھی کمیٹیاں ڈالنے کا موقع پا سکتے ہیں۔ ‘اڑان’ اپنے نظام میں کسی کو قبول کرنے سے پہلے ان کی تحقیقات کرتا ہے۔

فروہ ٹپال نے کہا کہ "پاکستان میں عموماً کریڈٹ اسکورنگ کا کوئی تصور نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ مالیاتی شمولیت یا لکیوئیڈٹی تک رسائی ایک مسئلہ ہے۔” ‘اڑان’ تصدیق شدہ شناخت کی بنیاد پر کریڈٹ قبولیت کا جائزہ لیتی ہے مثلاً صارفین کہاں رہتے ہیں، ان کی آمدنی کی تصدیق اور ذاتی ترجیحات وغیرہ۔

صارفین کی ‏’اڑان’ کی کمیٹیوں میں شامل ہونے کی ایک بڑی وجہ اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے سرمایہ اکٹھا کرنا، بے اولادی کے علاج کے لیے ادائیگی یا ظالم شوہر سے رہائی ہیں۔

‏’اڑان’ کے اس منصوبے سے مستقبل میں مالیاتی خدمات کا دروازہ کھل سکتا ہے اور حلیمہ کے مطابق اسٹارٹ اپ کا حتمی ہدف ایک آن لائن بینک بننا ہے۔

حلیمہ اقبال کہتی ہیں کہ

"ہم نے ثقافتی، مذہبی اور سماجی لحاظ سے قابلِ قبول ذریعہ اپنایا ہے، اسے ڈجیٹائز کیا ہے اور خواتین کو زیادہ با ضابطہ طور پر جگہ دی ہے جہاں وہ اپنا بینک اکاؤنٹ کھول سکتی ہیں۔”

‏’اڑان’ بچت، قرضے، بیمہ اور تعلیمی سرمایہ کاری کے ارادے بھی رکھتا ہے اور ساتھ ہی خواتین کو میوچوئل فنڈز اور دیگر اثاثوں میں پیسے کی بچت جیسی سرمایہ کاری مصنوعات بھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے