بھارت، 15 سالہ لڑکی کے ساتھ 33 مرتبہ گینگ ریپ، 29 ملزمان گرفتار

مظلوم لڑکی کی ریپ کرتے ہوئے وڈیو بنائی گئی اور اس کی بنیاد پر 8 ماہ تک بلیک میل کیا جاتا رہا

بھارت میں پولیس نے ایک 15 سالہ لڑکی کے ساتھ تقریباً آٹھ ماہ تک گینگ ریپ کرنے پر 29 افراد کو گرفتار کیا ہے۔

مظلوم لڑکی کو پہلی بار رواں سال 29 جنوری کو ممبئی کے نواحی شہر دومبیولی میں ریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس کی فلم بندی بھی کی گئی اور وڈیو کے ذریعے اسے اگلے آٹھ ماہ تک بلیک میل کر کے ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔

لڑکی کے ساتھ مجموعی طور پر 33 مرتبہ ریپ کیا گیا اور اس قبیح فعل میں دو نو عمر افراد بھی شامل ہیں۔

گزشتہ ہفتے جب لڑکی کے خاندان کو پہلی بار اس صورت حال کا علم ہوا تو اسے تھانے لے کر آئے اور ملزمان کے خلاف پرچا کٹوایا ہے، یعنی یہ معاملہ ابھی پچھلے ہفتے تک جاری تھا۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: تین دہائیوں میں بھارتی فوج کے کشمیری خواتین پر 11,245 جنسی حملے

پولیس کا کہنا ہے کہ وہ ان الزامات کی تحقیقات کر رہی ہے اور یہ جاننے کی کوشش بھی کہ لڑکی کا ان لوگوں سے ابتدائی رابطہ کیسے ہوا۔ پتہ جلا ہے کہ لڑکی ان میں سے چند لوگوں کو جانتی تھی اور سوشل میڈیا کے ذریعے ان سے رابطے میں آئی تھی۔ پولیس کے مطابق ریپ کے لیے لڑکی کو شہر اور اس کے باہر مختلف مواقع پر مختلف مقامات پر لے جایا گیا۔

یہ واقعہ ریپ کے ان کئی واقعات میں سے ایک ہے جنہوں نے ملک کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں اور ایک مرتبہ پھر تسلسل کے ساتھ ہونے والے جنسی حملوں کو سامنے لے آیا ہے۔

دو ہفتے پہلے ممبئی ہی میں ایک خاتون زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسیں کہ جنہیں مبینہ طور پر ریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ وہ بے ہوشی کے عالم میں ایک کھلی گاڑی میں پڑی ملی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت میں ریپ اور قتل کا ایک اور بھیانک واقعہ

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ 2012ء کے دہلی گینگ ریپ کیس سے بہت ملتا جلتا ہے، جس میں دارالحکومت میں ایک لڑکی کے ساتھ چلتی بس میں گینگ ریپ کیا گیا تھا اور بعد میں اس کی جان چلی گئی تھی۔ اس واقعے نے ملک بھر میں گویا آگ لگا دی تھی اور بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے۔

پھر دہلی میں ابھی پچھلے مہینے ایک 9 سالہ لڑکی کے گینگ ریپ اور قتل کا واقعہ بھی ہوا ہے جس کا الزام چار افراد پر ہے کہ جن میں ایک ہندو پروہت بھی شامل ہے۔

سال 2012ء سے اب تک ملک میں خواتین کے تحفظ کے لیے قوانین بنانے، موجودہ قوانین کو سخت کرنے اور ان کے عملی نفاذ کے مطالبات ہو رہے ہیں۔ حکومت نے کچھ نئے قوانین اور ان کے تحت سخت سزائیں متعارف بھی کروائی ہیں لیکن مسئلہ جوں کا توں موجود ہے۔ انسانی اور خواتین کے حقوق کے کارکنوں کے مطابق واقعات رپورٹ کرنے میں دشواری، قانون کے ناقص نفاذ، بڑے پیمانے پر صنفی عدم مساوات اور ذات پات کی تقسیم اس کی بڑی وجوہات ہیں۔

گزشتہ چند سالوں کے دوران بھارت میں ریپ کے واقعات کی رپورٹنگ میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ اس حوالے سے شعور اجاگر ہونا بھی ہے۔ 2019ء میں 32 ہزار سے زیادہ واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ 2012ء میں یہ تعداد 25 ہزار تھی۔ لیکن ریپ کے کئی واقعات سامنے ہی نہیں آتے یعنی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

2 Pings & Trackbacks

  1. Pingback: مزار قائد گینگ ریپ کیس، تینوں ملزمان از سرِ نو سماعت میں بھی بری - دی بلائنڈ سائڈ

  2. Pingback: بھارت میں برطانوی خاتون سفارت کار جنسی ہراسگی کا شکار - دی بلائنڈ سائڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے