عراق کے انتخابات میں حصہ لیتی سینکڑوں بہادر خواتین

عراق کے انتخابات میں 951 امیدوار خواتین ہیں، جو کُل امیدواروں کا تقریباً 30 فیصد ہیں

سالہا سال تک ملک سے باہر رہنے کے بعد جب 2014ء میں عواطف رشید عراق واپس آئی تھیں تو عدم تحفظ اور خواتین سیاست دانوں کے حوالے سے روایتی تعصب کے ملے جلے احساس کی وجہ سے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ ملتوی کر دیا تھا۔ لیکن 7 سال بعد ملک میں عدم استحکام کم ہوا ہے اور عواطف 10 اکتوبر کے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ اس کے باوجود کہ ملک میں خواتین کا استحصال کرنے اور سیاست کے میدان میں قدم رکھنے کی خواہش مند خواتین کو ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

آج عواطف اُن 951 خواتین میں سے ایک ہیں، جو کُل امیدواروں کا تقریباً 30 فیصد بنتی ہیں، جو ملک کی 329 نشستوں کی مجلسِ نمائندگان کے لیے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

ان میں سے چند خواتین امیدواروں کا ہدف ہے گھریلو تشدد کے خلاف نئے قانون کی منظوری اور قانون ساز اداروں میں خواتین کی نمائندگی بڑھانا۔

عراق کی خاتون سیاست دانوں کے لیے انتخابات میں حصہ لینا انتہائی کرب انگیز تجربہ ہو سکتا ہے۔ عواطف رشید اپنے اسمارٹ فون پر وہ تصویریں دیکھ رہی ہیں جن میں اُن کی انتخابی مہم کے پھٹے ہوئے بینرز دکھائے گئے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ "اپنے شہر بصرہ میں لگائے گئے 38 میں سے 28 بینرز پھاڑ دیے گئے ہیں جبکہ 4 غائب ہیں۔”

یہ بھی پڑھیں: صومالیہ میں خواتین کی نظریں انتخابات اور پارلیمنٹ پر

عواطف رشید 2000ء میں تب عراق سے کینیڈا چلی گئی تھیں جب ملک پر صدام حسین کی حکومت تھی۔ انہوں نے کینیڈا میں خواتین کی سماجی و سیاسی خود مختاری کے لیے مہم چلانے کا آغاز کیا اور عراق واپسی کے بعد بھی اس کام کو جاری رکھا۔ کہتی ہیں کہ سیاسی جماعتیں مجھ جیسی خواتین کو با آسانی قبول نہیں کرتی تھیں اور عراق کے سیاسی حالات پر ان کا خاندان بھی پریشان تھا۔

گو کہ خواتین کے حوالے سے امتیاز اب بھی بڑے پیمانے پر موجود ہے لیکن رواں سال خواتین امیدواروں کے تحفظ کے لیے اقدامات متعارف کروائے گئے ہیں۔ مثلاً وہ تشدد کے کسی بھی واقعے پر پولیس کو بیچ میں لائے بغیر عدالتی تفتیش کاروں سے براہ راست رابطہ کر سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ وزارت داخلہ نے بھی خواتین امیدواروں کی شکایات وصول کرنے کے لیے مخصوص ہاٹ لائن بنائی ہیں۔

انسانی حقوق کی ایک کارکن ہنا ادوَر کہتی ہیں کہ 2018ء کے انتخابات میں خواتین امیدوار بد تمیزی، دھمکیوں اور گالم گلوچ کا نشانہ بنیں، یہی وجہ ہے کہ چند امیدوار رواں سال انتخابات میں حصہ نہیں لے رہیں۔

ادوَر نے 2003ء میں صدام حکومت کے خاتمے کے بعد ملک کی سیاست میں خواتین کی شمولیت پر کام کا آغاز کیا اور مہم چلائی جس کے مطابق خواتین کا حصہ پارلیمان اور حکومت میں کم از کم 40 فیصد حصہ ہونا چاہیے۔ بالآخر پارلیمان کی نشستوں میں خواتین کے لیے 25 فیصد نشستیں مخصوص کرنے کا قانون متعارف کروایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: کویت میں انتخابات، خواتین اپنی نمائندگی بڑھانے کے لیے کوشاں

ڈاکٹر اور سیاست دان ندیٰ جبوری 2005ء سے اب تک اسی کوٹے پر دو مرتبہ پارلیمان کے لیے منتخب ہو چکی ہیں، کہتی ہیں "خواتین کے معاملات کا دفاع کرنا کبھی آسان نہیں رہا۔” انہوں نے پارلیمان میں اپنے ایجنڈے پر کام کرنے والی خواتین کے لیے سالہا سال کے تشدد، فرقہ وارانہ کشیدگی اور قبائلی دباؤ کو اضافی چیلنجز قرار دیا ۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی سیاسی جماعتیں بھی زیادہ تر اپنی خواتین اراکین سے چاہتی ہیں کہ وہ قدامت پسندانہ سماجی ایجنڈے پر کام کریں۔

35 سالہ علا تمیمی ایک انجینئر ہیں اور نیشنل اویئرنیس موومنٹ کی امیدوار ہیں۔ وہ نئی نسل کی ان خواتین میں سے ہیں جو سیاست میں پہلی بار قدم رکھ رہی ہیں۔ گھریلو تشدد کے خلاف نئے قانون کی منظوری اُن کے لیے ایک اہم مسئلہ ہے۔ کہتی ہیں کہ "عراق میں خواتین کی حالت اب بھی پسماندہ ہے اور عراق میں ان پر گھریلو تشدد کی شرح بہت زیادہ ہے۔ اس کے خلاف قانون کی منظوری بہت ضروری ہے۔”

گزشتہ دہائی میں گھریلو تشدد کے قانون کے حوالے سے مہم چلانے والی خواتین کارکنان چاہتی ہیں کہ گھریلو تشدد کی شکار خواتین کے لیے پناہ گاہیں بنائی جائیں اور نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے خلاف سخت قوانین نافذ کیے جائیں، لیکن حزب اختلاف، خاص طور پر مذہبی جماعتیں ایسے کسی بھی قانون کے خلاف ہیں۔

ندیٰ جبوری چاہتی ہیں کہ پارلیمان میں خواتین کی بہتر نمائندگی ہو جبکہ اس وقت عالم یہ ہے کہ موجودہ حکومت میں صرف تین خواتین وزرا کے عہدوں پر موجود ہیں۔ ان کے مطابق سرکاری اداروں کے اہم عہدوں کے لیے خواتین کو نامزد کرنا چاہیے تاکہ انہیں وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی تجربہ اور مشاہدہ حاصل ہو۔ اپنے علم اور وسائل کو بڑھانے کے بعد مستقبل کے انتخابات میں انہیں کوٹے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

One Ping

  1. Pingback: وبا کے دوران اور اس کے بعد بھی، عراقی لڑکیوں کی تعلیم جاری رکھنے کا منصوبہ - دی بلائنڈ سائڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے