خواتین کاشت کار سیاست دان ہوں تو خوراک کے عالمی مسائل حل ہو جائیں

عالمی غذائی پیداوار میں 50 فیصد سے زیادہ حصہ رکھنے کے باوجود خواتین فیصلہ سازی کے عمل سے باہر نظر آتی ہیں

زراعت کے شعبے میں خواتین بہت اہم حصہ ڈالتی ہیں، لیکن اس حوالے سے فیصلہ سازی کے مرحلے پر ان کی نمائندگی نظر نہیں آتی اور اس کے سنگین نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔

گلوبل فوڈ سسٹمز تھنک ٹینک ‘فوڈ ٹینک’ کی شریک بانی اور موجودہ سربراہ ڈینیل نیرن برگ کہتی ہیں کہ پالیسی سازی کے مرحلے پر خواتین کو شامل کرنے سے اقوامِ متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف (SDGs) حاصل کرنے اور ساتھ ہی دنیا بھر کو خوراک اور غذائیت کے معاملات میں بہتری پانے میں مدد مل سکتی ہے۔

معروف محقق اور خوراک کے نظام (فوڈ سسٹم) اور زراعت کے حوالے سے مشہور نیرن برگ کا ماننا ہے کہ ماحولیات اور صحت کے بحرانوں میں خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ کووِڈ-19 نے خوراک کی عالمی پیداوار کو تہہ و بالا کر دیا ہے، جس سے خواتین کاشت کار جو پہلے ہی زرعی ترقی میں مکمل شراکت کے عمل سے باہر تھیں، بُری طرح متاثر ہوئی ہیں

یہ بھی پڑھیں: سندھ میں تاریخی قانون سازی، آبی انتظام میں خواتین کا کردار بھی لازمی قرار

انہوں نے کہا کہ ہمیں اس امر کو یقینی بنانے کے لیے ابھی ایک طویل سفر طے کرنا ہے کہ پالیسی سازی صنفی اندھے پن کا شکار نہ ہو اور بڑی مصیبتوں کے ایام میں خواتین کو پیشِ نظر رکھیں۔ "پالیسی سازوں کو غذائی نظاموں میں کاشت کاروں اور ماہی گیروں کی ضروریات کو شامل کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ اب وقت آ چکا ہے کہ زراعت کے عمل کا حصہ بننے والے افراد کو سیاسی معاملات چلانے میں شامل کیا جائے کیونکہ وہ ان چیلنجز کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ اگر دنیا بھر میں مزید کاشت کار حکومتوں کا حصہ ہوں تو تصور کیجیے کہ یہ دنیا کیسی ہو جائے گی۔ اگر خواتین کاشت کار بلدیات، قصبات اور ممالک چلا رہی ہوں تو بڑی تبدیلی آئے گی۔”

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (FAO) کے مطابق خواتین دنیا بھر غذائی پیداوار میں 50 فیصد سے زیادہ میں حصہ ڈالتی ہیں اور زرعی افرادی قوت کا 40 فیصد سے زیادہ ہیں۔ لیکن ایک طرف جہاں وہ خاندانوں کو غذائیت اور خوراک کی فراہمی کا کام کرتی ہیں، وہیں غذائی پیداوار کے اہم معاملات تک رسائی میں مردوں سے کہیں پیچھے ہیں۔ وہ اراضی حاصل کرنے، اخراجات، بینکاری اور مالیاتی خدمات تک اتنی رسائی نہیں رکھتیں، جتنی مردوں کو حاصل ہے۔

نیرن برگ کہتی ہیں کہ "جب تک دنیا بھر میں خواتین کے ساتھ یہ امتیازی سلوک بند نہیں ہوگا، میرا نہیں خیال کہ حالات میں کوئی تبدیلی آ سکتی ہے۔”

غذائی نظام (فوڈ سسٹم) دراصل سرگرمیوں کا ایک پیچیدہ جال ہے کہ جس میں خوراک کی پیداوار، پروسیسنگ، تقسیم اور کھپت کے علاوہ انتظام و انصرام، ماحولیاتی لحاظ سے پائداری اور صحت پر خوراک کے اثرات بھی شامل ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے