خواتین پر تشدد کے واقعات کو دہشت گردی کی طرح سنجیدہ لیا جائے، پولیس سے مطالبہ

برطانیہ میں گھریلو تشدد کے ہر چار میں سے تین واقعات پر کوئی کار روائی نہیں کی جاتی، رپورٹ

برطانیہ کے انسپیکٹوریٹ آف کانسٹیبلری اینڈ فائر اینڈ ریسکیو سروسز کی ایک رپورٹ نے بتایا ہے کہ ملک میں گھریلو تشدد کے ہر چار میں سے تین واقعات پر کوئی کار روائی نہیں کی جاتی اور ان کے کیس ایسے ہی بند کر دیے جاتے ہیں۔

خواتین پر جنسی حملوں کے واقعات کے حوالے سے یہ شرح ‏2014-15ء میں 4,326 تھی لیکن ‏2019-20ء میں ایسے کیسز کی تعداد 13,395 تک جا پہنچی ہے۔

ادارے کا کہنا ہے کہ بند کیے گئے کیسز کی شرح بہت زیادہ ہے اور پولیس اہلکاروں کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ ایسے واقعات میں قانون اور معیارات کے مطابق تفتیش کی جائے اور وہ اپنے اختیارات اور ذرائع کا بھرپور استعمال کریں۔ ادارہ چاہتا ہے کہ خواتین کے خلاف تشدد کو بھی اتنا ہی سنجیدہ لیا جائے، جتنا دہشت گردی کے معاملات کو لیا جاتا ہے۔

رپورٹ پر کام 33 سالہ سارا ایڈورڈ کے قتل کے بعد شروع کیا گیا تھا اور اس میں جائزہ لیا گیا ہے کہ پولیس آخر خواتین اور لڑکیوں پر تشدد کے واقعات سامنے آنے کے بعد کس طرح کا رد عمل دکھاتی ہے ۔ پتہ چلا کہ اگر خواتین معلومات طلب بھی کریں تو ان کی مدد نہیں کی جاتی اور چند معاملات میں تو 9 میں سے صرف 1 واقعے میں ہی مطلوبہ معلومات دی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: خاتون کا بھیانک قتل، فرانس میں گھریلو تشدد کرنے والے مشتبہ افراد کا اسلحہ ضبط کرنے کا مطالبہ

برطانوی قانون کے مطابق اگر کسی خاتون کا ساتھی تشدد کا ماضی رکھتا ہو تو قانون کے تحت پولیس خاتون کو بتانے کی مجاز ہے۔ لیکن حیران کن طور پر چند خواتین کو اپنے ساتھی کا مجرمانہ ریکارڈ جاننے کے لیے 150 دن تک کا انتظار کرنا پڑا ہے جبکہ ہفتے بھر میں اس کا جواب ملنا چاہیے تاکہ ایسے عادی مجرموں کو روکا جا سکے۔ پھر رپورٹ کے مطابق صرف آدھی درخواستوں پر ہی پولیس کی جانب سے کوئی جواب دیا گیا۔

ادارے کے مطابق رپورٹ میں کئی مسائل، ناہمواریت اور ناموافقت کا پتہ چلایا گیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کس طرح برطانیہ میں خواتین پر تشدد کے معاملات کی وبا سے نمٹتے ہیں۔ اس کے مطابق چند عادی مجرم اور گھریلو تشدد کرنے والے قانون پر ہنستے ہوں گے کیونکہ اسے نافذ کرنے والے ادارے قانون لاگو کرنے میں ناکام ہیں۔

رپورٹ گھریلو تشدد کی شکار خواتین، سرکاری عہدیداروں، پولیس اور دیگر سے کیے گئے سروے اور انٹرویوز کی بنیاد پر ترتیب دی گئی ہے اور وزارتِ داخلہ کے تحت جاری کی گئی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے