حقوقِ نسواں کے حوالے سے عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لیے میڈیا اصلاحات کا مطالبہ

خواتین کی جدوجہد کو اس کے اصل روپ میں پیش کرنے والے میڈیا کی ضرورت ہے، ماہرین

پاکستان میں میڈیا کے اداروں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ جنگی بنیادوں پر خواتین کے حقوق کے حوالے کے حوالے سے معاشرے میں حساسیت پیدا کریں کیونکہ ملک میں ان کے لیے ماحول میں یکدم خطرناک ہو چکا ہے۔

صحافیوں اور سماجی اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے عکس ریسرچ سینٹر کی جانب سے منعقدہ ایک آن لائن مذاکرے میں شرکت کی۔ یہ ادارہ صنفی مساوات اور خواتین کی ترقی کے لیے کام کرتا ہے۔

اس موقع پر عکس کی ڈائریکٹر تسنیم احمر نے کہا کہ ان حالات میں جب معاشرہ مصائب میں مبتلا ہے، انہیں ایسے میڈیا کی ضرورت ہے جو خواتین کی جدوجہد کو اس کے اصل روپ اور ادراک کے ساتھ پیش کرے۔

انہوں نے کہا کہ

صرف مردوں پر مشتمل پینلز مسائل کا حل نہیں ہیں، اور انہیں میڈیا مینیجرز اور عوام کی جانب سے مسترد کرنا چاہیے۔ اس کے بجائے نچلی سطح کی خواتین جنہوں نے معاشرے میں اپنی بقا کے لیے سخت جدوجہد کی ہے کو مذاکروں کا حصہ بنانا چاہیے تاکہ ان کی داستانیں دنیا کے سامنے پیش کی جا سکیں۔

 

صحافی زیب النسا برکی نے کہا کہ زیادہ تر نیوز رومز میں عمروں کے لحاظ سے بہت فرق پایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے جدید مسائل نمایاں طور پر سامنے نہیں لائے جاتے۔

یہ بھی پڑھیں: ذرائع ابلاغ سے وابستہ خواتین کے مسائل، شرمین چنائے کی نئی فلم ریلیز ہو گئی

انہوں نے کہا کہ

پورا میڈیا افغانستان کے بارے میں بات کر رہا ہے اور مختلف ماہرین سے رائے لے رہا ہے لیکن کتنے ادارے ہیں جنہوں نے افغان خاتون صحافیوں کو اپنے مذاکروں میں شامل کیا تاکہ اس صورت حال پر ان کی رائے بھی لی جا سکے؟

میڈیا کے تفریحی شعبے کی جانب توجہ دلاتے ہوئے اسکرین رائٹر بی گل نے کہا کہ حقیقی داستانوں کا رخ کرنے کے بعد میڈیا مالکان ایسی خیالی کہانیاں چاہتے ہیں کہ جن میں مرد کو عورت کا محافظ اور نجات دہندہ دکھایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈراموں میں ایک خاتون کو با اختیار اور کام کرنے والی دکھایا جاتا ہے تو اگلے ہی مناظر میں وہ اپنے گھر کے باورچی خانے میں مصروف نظر آتی ہے جبکہ مردوں کو کوئی گھریلو ذمہ داری نبھاتے نہیں دکھایا جاتا۔

انسانی حقوق کے ماہر سلمان آصف نے کہا کہ

پدر شاہی (patriarchy) اور زن بیزاری (misogyny) معاشرے میں جڑیں پکڑ چکی ہیں۔ نہ صرف مرد بلکہ عورت، بلکہ طاقتور عورتیں بھی، مسئلے کا حصہ بنی ہوئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے پوری سوچ بچار کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس کا آغاز سیاسی جماعتوں، ان کے رہنماؤں اور اراکین پارلیمان سے ہونا چاہیے۔ میڈیا معاشرے کا آئینہ ہے، اسے خواتین کے حقوق پر ان کے ساتھ بحث کرنی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: میڈیا بحران کی وجہ سے نیوز روم خواتین کی توانا آوازوں سے محروم

صحافی عامر متین نے کہا کہ میڈیا کو ضرورت ہے کہ وہ اپنے اداروں کے ماحول کو خواتین کے لیے بہتر بنائے۔ 60ء اور 70ء کی دہائی میں معاشرے میں برداشت کہیں زیادہ تھی، لیکن یہ آہستہ آہستہ گھٹتے ہوئے آج اس مقام پر آ چکی ہیں۔ انہوں نے اسمبلی میں خواتین کے کوٹے پر سیاست دانوں کی رشتہ داروں کو نہیں بلکہ سڑکوں پر خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانی والی عورتوں کو جگہ ملنی چاہیے۔ انہوں نے تجویز کیا کہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی ملک بھر میں اس حوالے سے عوام میں شعور و آگاہی کی مہم چلائے۔

صحافی ظفر عباس نے کہا کہ میڈیا میں خواتین کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے اور مین اسٹریم صحافت میں خواتین کی بہت کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیوز رومز کو متوازن بنانے کے لیے صنفی مساوات ضرورت ہے کیونکہ ان مسائل کے حل کا یہی راستہ ہے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے