خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا جائے، افغانستان میں خواتین کا غیر معمولی مظاہرہ

تعلیم، تحفظ اور روزگار ہمارا بنیادی حق ہے، ہرات مظاہرے میں شریک خواتین کا نعرہ

افغانستان کے مغربی شہر ہرات میں تقریباً تین درجن خواتین نے ایک غیر معمولی مظاہرہ کیا کہ جس میں نئی طالبان قیادت سے خواتین کے حقوق اور گزشتہ دو دہائیوں میں اس سمت ہونے والی پیش رفت کے تحفظ کا مطالبہ کیا  گیا۔

ہرات کے گورنر ہاؤس کے باہر ہونے والے اس مظاہرے میں شریک خواتین کا کہنا تھا کہ تعلیم، تحفظ اور روزگار ہمارا بنیادی حق ہے اور انہوں نے یہ نعرہ بھی لگایا کہ غم نہ کرو، ہم سب ساتھ ہیں۔

طالبان نے 15 اگست کو دارالحکومت کابل میں اقتدار سنبھالا اور تب سے ان کا بارہا یہی کہنا ہے کہ وہ دیگر ممالک کے ساتھ پُر امن تعلقات چاہتے ہیں اور اسلامی قوانین  کے دائرے میں رہتے ہوئے خواتین کے حقوق کا احترام کریں گے۔

ماضی میں 1996ء سے 2001ء تک اپنے دورِ اقتدار میں طالبان نے خواتین کو کام کرنے سے روک دیا تھا بلکہ لڑکیوں کو اسکول جانے کی اور خواتین کو پردے اور محرم کے بغیر گھروں سے نکلنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔

یہ بھی پڑھیں: کیا خواتین کے حقوق کے حوالے سے طالبان کے وعدوں پر یقین کرنا چاہیے؟

جن افغانوں نے طالبان کا وہ دور دیکھا ہے، وہ تو طالبان کے نئے وعدوں پر اعتبار نہیں کرتے۔

بہرحال، مظاہرے میں شریک فریبہ کبرزانی نے کہا کہ نئی حکومت، کابینہ اور لویہ جرگہ میں خواتین کی شرکت ہونی چاہیے۔ افغان خواتین نے پچھلے 20 سالوں میں بڑی قربانیاں دے کر آج یہ سب حاصل کیا ہے۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ دنیا ہماری سنے اور ہمارے حقوق کا تحفظ ہو۔ انہوں نے بتایا کہ  چند خواتین کو ان کے گھر والوں نے تحفظ کے خوف کی وجہ سے اِس مظاہرے میں شرکت نہیں کرنے دی۔

مظاہرے میں شریک ایک اور خاتون بصیرہ طاہری نے کہا کہ طالبان کو اہم فیصلوں پر خواتین سے مشاورت کرنی چاہیے۔ ہم اب تک ان کے اجلاس اور اجتماعات میں کسی خاتون کو نہیں دیکھ رہے۔

واضح رہے کہ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد یورپی یونین نے کہا تھا کہ وہ نئی افغان حکومت کے ساتھ تب تعاون کرے گی، جب خواتین سمیت سب کے بنیادی حقوق کا احترام کیا جائے گا۔  اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے کئی اداروں نے بھی خدشات کا اظہار کیا ہے، خاص طور پر ایسی خبریں سامنے آنے کے بعد کہ طالبان رہنماؤں کی جانب سے ایک معتدل چہرہ پیش کرنے کی کوشش کے باوجود عملی میدان میں جنگجوؤں کے اقدامات بالکل برعکس ہیں۔

2 Pings & Trackbacks

  1. Pingback: لڑکیوں کی تعلیم کی راہ میں حائل رکاوٹیں دُور کرتی افغان خاتون - دی بلائنڈ سائڈ

  2. Pingback: افغانستان: خواتین کی جبری شادیوں پر پابندی لیکن تعلیم و روزگار بدستور معطل - دی بلائنڈ سائڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے