ایک اور حاملہ لیڈی ڈاکٹر کرونا وائرس سے جاں بحق

دو لیڈی ڈاکٹرز کی موت حاملہ خواتین کو ویکسین لگانے میں پس و پیش کا نتیجہ

ٹیکسلا کی سینیئر گائناکولوجسٹ ڈاکٹر ثمرہ علی کووِڈ-19 سے انتقال کر گئی ہیں۔ یوں وہ ایک ہی دن میں کرونا وائرس سے جاں بحق ہونے والی دوسری حاملہ خاتون ڈاکٹر بن گئیں۔

ان سے پہلے فلائٹ لیفٹیننٹ ڈاکٹر ماہ نور فرزند نے کمبائنڈ ملٹری ہسپتال ملیر کینٹ میں اپنی آخری سانسیں لی تھیں، جہاں وہ کووِڈ-19 کی وجہ سے ایک ہفتے سے زیر علاج تھیں۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق دونوں لیڈی ڈاکٹرز حاملہ تھیں اور انہیں کرونا وائرس کی ویکسین نہیں لگائی گئی تھی۔

پاکستان میں اب تک کووِڈ-19 کے ہاتھوں جاں بحق ہونے والے ڈاکٹروں کی تعداد 221 ہو چکی ہے۔

ثمرہ علی میڈیکل کالج سے گریجویٹ تھیں، جس کے بعد انہوں نے 2012ء میں آغا خان یونیورسٹی سے FCPS کیا تھا۔ چند سال سعودی عرب میں قیام کے بعد انہوں نے واہ انٹرنیشنل ہسپتال، ٹیکسلا کا حصہ بن گئی تھیں۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے ڈاکٹر قیصر سجاد کہتے ہیں کہ احساسات بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔ یہ وقت ہے کہ خواتین میں شعور اجاگر کیا جائے، خاص طور پر لیڈی ڈاکٹرز میں کہ کووِڈ-19 کی ویکسین حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی ماؤں کے لیے محفوظ ہے۔

ڈاکٹر ثمرہ کے شوہر بھی طب کے شعبے سے وابستہ ہیں جبکہ انہوں نے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کو بھی سوگوار چھوڑا ہے۔

امریکا کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے مطابق کووِڈ کے ہاتھوں شدید بیمار پڑنے کا خطرہ حاملہ خواتین میں عام عورتوں سے زیادہ ہے۔ یعنی ان کے لیے ہسپتال داخل ہونے یا انتہائی نگہداشت کی نوبت آنے، یا وینٹی لیٹر کا سانس لینے کے لیے مخصوص آلات کے استعمال کی ضرورت بلکہ موت کا خدشہ بھی زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ کووِڈ کی وجہ سے بچے کی قبل از وقت ولادت اور حمل کی دیگر پیچیدگیوں کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ادارہ 12 سال سے زیادہ عمر کے تمام افراد کے لیے ویکسین تجویز کرتا ہے، جن میں حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین بھی شامل ہیں۔

واضح رہے کہ کسی بھی سائیڈ افیکٹ کے خطرے کے پیشِ نظر دنیا کے بیشتر ممالک میں حاملہ خواتین کو ویکسین نہیں لگائی جا رہی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے