اولمپکس دراصل کھیلوں میں اپنی مہارت دکھانے کے لیے دنیا کا سب سے بڑا پلیٹ فارم ہیں لیکن اس وقت اولمپکس کے حوالے سے زیرِ بحث موضوع یہ ہے کہ خواتین کو کیا پہننا چاہیے؟
کھیل میں خواتین کے یونیفارم کے حوالے سے کچھ باتیں پہلے سے جاری تھیں لیکن ٹوکیو اولمپکس کے دوران ناروے کی بیچ ہینڈ بال ٹیم اور پھر جرمن جمناسٹکس ٹیم نے اس بحث کو عروج پر پہنچا دیا ہے۔ جرمن کھلاڑیوں نے جمناسٹکس میں مختصر لباس leotards پہننے سے انکار کر دیا جبکہ ناروے کی بیچ ہینڈ بال کھلاڑیوں نے بلغاریہ کے خلاف میچ میں انتہائی مختصر لباس پہننے کے بجائے شارٹس میں شرکت کی، جس پر انہیں جرمانے کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
جرمن ٹیم کی رکن ایلزبتھ شیز کہتی ہیں کہ دراصل ہم چاہتے ہیں کہ ہر خاتون اور ہر شخص یہ فیصلہ خود کرے کہ اسے کیا پہننا چاہیے۔ ہمارے اس احتجاج کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہم مروجہ لباس نہیں پہننا چاہتے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ ان فیصلے کا انحصار کھلاڑی پر ہونا چاہیے کہ وہ کیسا محسوس کرتا ہے اور کیا چاہتا ہے۔
شیز نے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر بھی لکھا ہے کہ ٹیم "نئی قسم کا لباس” پہن کر ایک مثال قائم کرنا چاہتی تھی تاکہ کھلاڑیوں کو آواز ملے کہ جو "مروجہ لباس میں خود کو بے آرام یا جنسیت زدہ سمجھتی ہیں۔”
امریکی اخبار یو ایس اے ٹوڈے کے لیے لکھتے ہوئے انوشہ حسین کہتی ہیں کہ دنیا بھر میں جنسیت (sexism) اور زن بیزاری (misogyny) کے خلاف لوگوں کی جانب سے اولمپک کھلاڑیوں کی حمایت کرتے دیکھنا بہت حوصلہ افزا ہے۔ لیکن ایک غیر سفید فام امریکی مسلمان کی حیثیت سے یہ سوال کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ آخر سفید فام عورت کے اپنا جسم ڈھانپنے کے حق کی اتنی زبردست حمایت کیوں؟ جبکہ سیاہ فام اور دیگر رنگ و نسل اور مذہب کی خواتین کے لیے ایسا کیوں نہیں؟
کھیل کی معروف صحافی شیریں احمد کہتی ہیں کہ حجاب پر پابندی کی وجہ سے مسلمان خواتین کھلاڑیوں کی نسلیں متاثر ہوئی ہیں۔ تاریخی طور پر حجاب پر پابندی کھلاڑیوں اور ان کے حریفوں کی ‘حفاظت’ کے لیے لگائی گئی اور ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ حقیقت نہیں ہے۔
شیریں کہتی ہیں کہ مسلمانوں اور غیر سفید فام خواتین کو روکنا اور ان کی جبری بے پردگی طویل عرصے سے موجود ہے۔ 2019ء میں جب فرانس نے ویمنز فٹ بال ورلڈ کپ کی میزبانی کی تو نہ صرف حجاب پہننے والی فرانسیسی مسلمان خواتین کو کھیلنے بلکہ کوچنگ یا کسی بھی طرح سے ٹیم کا حصہ بننے سے بھی روک دیا گیا تھا۔
"مجھے ناروے کی خواتین کھلاڑیوں کی حمایت پر کوئی غصہ نہیں۔ بلاشبہ یہ انتہائی ناپسندیدہ بات ہے اور کھیل میں سرایت کر جانے والی جنسیت کو بیان کرتی ہے۔ لیکن سیاہ فام اور دیگر رنگ و نسل اور مذہب خواتین کے لیے اتنا اشتعال پیدا نہ ہونا ضرور پریشان کُن ہے۔”
انوشہ حسین لکھتی ہیں کہ اولمپکس میں سفید فام خواتین کو اپنے جسم پر اختیار نہ دینا بالکل ایسا ہی ہے جیسے مسلمان خواتین کو اپنے جسم پر خود مختاری نہ دینا۔ اس حوالے سے جو بات حیران کن ہے وہ یہ ہے کہ خواتین کھلاڑیوں کو ان کی رنگت یا نسل کی بنیاد پر مختلف طرزِ عمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔
اب جبکہ ٹوکیو اولمپکس میں عالمی منظرنامے پر یہ سب ہوتا نظر آ رہا ہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کو کب اور کہاں کیا پہننا چاہیے اور کیا نہیں؟ اس کا اختیار مردوں سے چھین لیا جائے۔
Pingback: چینی کھلاڑی کی ماں کے علاج کے لیے ریکارڈ توڑ کارکردگی - دی بلائنڈ سائڈ
Pingback: ہینڈ بال، خواتین کے مختصر لباس پہننے کی شرط خاموشی سے ختم کر دی گئی - دی بلائنڈ سائڈ