جرمنی کی جمناسٹکس کھلاڑیوں نے اولمپکس میں ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے اور انتہائی مختصر لباس استعمال کرنے کے بجائے پورے جسم کو ڈھانپنے والے unitards کا استعمال کر کے خواتین کو جنسی روپ میں پیش کرنے کے خلاف احتجاج کیا ہے۔
سارا ووس، پالین شیفر، ایلزبتھ شیز اور کم بوئی پر مشتمل جرمن ٹیم نے تربیتی سیشن میں بھی اسی لباس کے ساتھ شرکت کی تھی اور اہم مقابلوں میں بھی unitards ہی میں شریک ہوئیں۔ 21 سالہ ووس نے بتایا کہ عمر بڑھنے کے ساتھ آپ کو اپنے جسم میں پیدا ہونے والی تبدیلی کے مطابق خود کو بہتر بنانا پڑتا ہے۔ آپ کو یقین ہونا چاہیے کہ آپ کس لباس کے اندر خود کو پر سکون اور آرام دہ محسوس کر رہی ہیں۔ ہم نے سب کے سامنے ثابت کیا ہے کہ لڑکیاں جو چاہیں پہن سکتی ہیں، جس میں وہ خود کو بہتر بلکہ شاندار لگیں۔
ووس نے کہا کہ وہ نئی نسل کے لیے ‘رول ماڈلز’ بننا چاہتی ہیں اور ان کے اقدامات کو ساتھی کھلاڑیوں نے بھی بہت سراہا ہے۔
ناروے کی جمناسٹ جولی ایرکسن نے کہا کہ
مجھے یہ دیکھ کر اچھا لگا۔ ان لڑکیوں میں ہمت ہے کہ اتنے بڑے میدان میں بھی انہوں نے اپنے عمل سے ایک پیغام دیا ہے اور دنیا بھر کی لڑکیوں پر ظاہر کیا ہے کہ وہ جو چاہے پہن سکتی ہیں۔
اپریل میں پہلی بار مکمل لباس کا استعمال کرنے کے بعد شیز نے کہا تھا کہ انہیں امید ہے کہ کھیل سے وابستہ دوسری خواتین بھی اس عمل کی پیروی کریں گی۔
یہ بھی پڑھیں: ’جنسی طور پر ہیجان خیز لباس’ پر کھلاڑیوں کی تنقید، کئی خواتین مکمل جسم ڈھانپنے والے لباس کے حق میں
بین الاقوامی مقابلو ں میں ٹانگوں کو بھی ڈھانپنے والے اس لباس کے استعمال کی اجازت تو تھی لیکن اس کی واحد وجہ مذہبی قرار دی جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر مسلمان کھلاڑی ہی جسم کو ڈھانپنے والا لباس پہن کر شریک ہوتی تھیں۔ لیکن ٹوکیو 2020ء اولمپکس سے ایک نئی بحث نے جنم لے لیا ہے۔ مثلاً ابھی چند روز پہلے بیچ ہینڈ بال میں ناروے کی ٹیم بھی اپنی مرضی کے لباس میں شریک ہوئی، جس پر انہیں جرمانے کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن یہ بحث ضرور چھڑ گئی ہے کہ آخر مردوں اور عورتوں کے لیے یونیفارم کیوں مختلف رکھے گئے ہیں۔
جمناسٹکس میں عموماً مرد مکمل لباس کے ساتھ شریک ہوتے ہیں جبکہ انہی کھیلوں میں خواتین کا لباس بہت ہی مختصر ہوتا ہے۔ مثلاً بیچ والی بال، بیچ ہینڈ بال بلکہ جمناسٹکس ہی کو دیکھ لیں۔
گو کہ قانوناً جمناسٹکس میں خواتین کو unitards کے استعمال کی اجازت ہے لیکن شائقین اور پرستاروں کی جانب سے یہی توقع کی جاتی ہے کہ کھلاڑی مختصر لباس کے ساتھ کھیلیں گی۔ مرد سے مکمل اور عورت سے مختصر لباس کی توقع رکھنا ہی دراصل جنسیت (sexism) ہے۔
خواتین کو بھی یہ اختیار ہونا چاہیے کہ وہ جو چاہے پہنیں اور ان سے یہ توقع نہ رکھی جائے کہ ان کا یونیفارم بلا ضرورت جسم کو ظاہر کرنے والا ہو۔
Pingback: کورین کھلاڑی تین گولڈ میڈل جیتنے کے باوجود بد ترین تنقید کی زد میں کیوں؟ - دی بلائنڈ سائڈ