بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں پہلی بار خواتین فوجیوں کو تعینات کیا ہے اور کہتا ہے کہ وہ مقامی آبادی کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے اور اپنی فوج میں صنفی مساوات کے فروغ کے لیے یہ قدم اٹھا رہا ہے۔ لیکن اس کی یہ کوششیں بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بن رہی ہیں اور مذکورہ بالا دونوں اہداف کے حوالے سے اس کے اقدامات پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
بھارت کی وزارتِ داخلہ نے انتہائی خاموشی کے ساتھ آسام رائفل کی مسلح بٹالین کو کشمیر منتقل کیا تھا کہ جس میں شمال مشرقی ریاست منی پور کی خواتین شامل ہیں۔ 34 ویں بٹالین دارالحکومت سری نگر سے 38 کلومیٹرز کے فاصلے پر واقع گاندربل میں تعینات ہے۔ انہیں سری نگر سے لداخ جانے والے راستے پر کئی اہم چوکیوں پر تعینات کیا گيا ہے۔
حال ہی میں انٹرنیٹ پر چند تصویریں وائرل ہوئی تھیں، جن میں ان فوجی اہلکاروں کو مقامی خواتین کی تلاشی لیتے دیکھا گیا تھا۔ ان تصویروں کی قباحت اپنی جگہ، لیکن اہلکاروں کا کہنا ہے کہ وہ کشمیری خواتین کا اعتماد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ مثلاً 24 سالہ اہلکار روپالی کا تعلق ریاست مہاراشٹر سے ہے، جن کا کہنا ہے کہ ہم مقامی خواتین کو اعتماد دینا چاہتی ہیں۔ ہمارا ہدف ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہے کہ وہ اپنے معمول کے گھریلو کام سے آگے بڑھیں۔
یہ کیسا ہدف ہے؟ اور اس ہدف کے لیے فوج کی تعیناتی کیوں؟ اور آخر کشمیر میں ایسا کرنا کیوں ضروری ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ذہن میں ابھرتے ہیں اور ان کا کوئی جواب کسی کے پاس نہیں ہوگا۔
فوجی حکام کا کہنا ہے کہ کشمیر میں خواتین اہلکاروں کی تعیناتی کا مقصد رہائشی علاقوں میں آپریشنز کے دوران خواتین کے ساتھ رابطوں کو بہتر بنانا ہے۔
بھارت کی قابض فوج کا مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کا ریکارڈ انتہائی بھیانک ہے، خاص طور پر اگر معاملہ خواتین کا ہو کہ جنہیں جنسی طور پر ہراساں کرنے میں بھارتی فوج بہت بدنام ہے۔
مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والی اہلکار 27 سالہ ریکھا کا کہنا ہے کہ ہمارا ہدف یہ ہے کہ سرچ آپریشنز کے دوران خواتین کو کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
رات گئے چھاپے مارنے اور آزادی کی مقامی تحریک کو کچلنے کی کوشش کے دوران مقامی خواتین کو جن اذیتوں سے گزرنا پڑتا ہے، اس بارے میں کچھ بتانے کی ضرورت نہیں، لیکن بھارتی فوجی اہلکاروں کے ایسے بیانات ان کی "معصومیت” کو کرتے ہیں۔
ایگزیکٹو ڈائریکٹر ‘فورس’ میگزین غزالہ وہاب کا کہنا ہے کہ فوج نے دراصل جنسی تشدد کے الزامات سے بچنے کے لیے کشمیر میں خواتین کو اتارا ہے۔
انسانی حقوق کے ادارے کہتے ہیں کہ
بھارتی فوج پر الزامات کی فہرست بہت طویل ہے، مثلاً سرچ آپریشن کے دوران مقامی خواتین پر گھٹیا تبصرے ، فحش اشارے کرنا، انہیں نامناسب انداز میں چھونا، یہاں تک کہ ان کے ساتھ ریپ بھی کرنا۔
لاپتہ افراد کے والدین کی انجمن (APDP) کی کارکن سبیعہ ڈار کہتی ہیں کہ بھارتی فوج کے ایسے جرائم میں ملوث ہونے کی شرح 90ء کی دہائی میں خطرناک حد تک تھی، البتہ اب انسانی اور خواتین کے حقوق کے اداروں کے دباؤ کی وجہ سے اس میں کمی آئی ہے۔” سبیعہ نے بتایا کہ خواتین اہلکاروں کی تعیناتی دراصل یہ بتانے کی کوشش ہے کہ بھارتی مسلح افواج کشمیری خواتین کے حقوق کے حوالے سے حساسیت رکھتی ہے۔
ستمبر 2019ء میں دورۂ کشمیر میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے Women Against Sexual Violence and State Repression نے پایا تھا کہ اسکول جانے والی لڑکیوں کو فوجی کیمپوں کے سامنے سے گزرنا پڑتا ہے اور انہیں وردی میں ملبوس اہلکاروں کی جانب سے جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ بسا اوقات سکیورٹی اہلکار اپنی پینٹ کی زپ کھول کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان پر گھٹیا جملے اچھالتے اور فحش اشارے کرتے ہیں۔
بدنام AFSPA قانون کی وجہ سے کشمیر میں اگر کوئی فوجی کسی جرم پر مرتکب ہوتا ہے تو اسے عدالت میں نہیں گھسیٹا جا سکتا، جب تک کہ وفاقی حکومت رضامندی ظاہر نہ کرے۔ اور وہ ایسا کرے گی بھی کیوں؟
اب خواتین اہلکاروں کی تعیناتی اور ان کے ہاتھوں مقامی خواتین کی تلاشی کی تصویریں وائرل ہونے کے بعد قابض فوج بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ یونیورسٹی آف ناردرن کولوراڈو میں ماہرِ بشریات اطہر ضیا کہتےہیں کہ خواتین اہلکاروں کی تعیناتی دراصل "کشمیر میں جنگی جرائم پر صنفی پردہ ڈالنے” کی کوشش ہے اور یہ عمل "صنفی انصاف کے قتلِ عام” کے مترادف ہے۔
"بتائیں کہ جیل میں سڑنے والی خاتون سیاسی قیدیوں کے لیے اس کی کیا اہمیت ہے کہ ان پر پہرہ دینے والی خاتون ہے یا مرد؟ انہیں تو ویسے ہی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا سامنا ہے اور ان کے خلاف ریپ کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا ہے، وہ 24 گھنٹے اور ساتوں دن نگرانی میں رکھا جاتا ہے۔”
جواب دیں