یکساں سوِل کوڈ کے لیے ہندوتوا ماڈل؟ حالات مزید گمبھیر ہو جائیں گے

عوامی رائے اور ہندوتوا کی جانب میلان رکھنے والوں کے رویّے سے لگتا ہے کہ یکساں سوِل کوڈ ہندو قوانین کے سائے تلے جنم لے رہا ہے

کیا اتفاق ہے کہ ملک میں یکساں سوِل کوڈ کے حامیوں کی اکثریت "لو جہاد” کی کہانیوں پر یقین رکھتی ہے۔ "لو جہاد” محض ایک من گھڑت افسانہ ہے اور یہ بات غالباً ان لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ جو اس حوالے سے بہت ہنگامہ مچاتے ہیں۔ اس کی بنیادیں دراصل جدیدیت سے خوف میں ہیں۔ برادری سے باہر شادی نہ کرنا دراصل فرقہ بندی کی بنیاد ہے اور مختلف مذہب رکھنے والے افراد کے مابین شادی اس کے لیے فطری خطرہ ہے۔

‘لو جہاد’ کے نام پر بنائے گئے قوانین دراصل شادی کے لیے ‘جبری’ تبدیلی مذہب کو مجرمانہ حیثیت دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر یکساں سوِل کوڈ آتا ہے تو ایسے قوانین کا خاتمہ ہو جائے گا۔ احتمالاً جب شادی کا طریقہ اور ضابطے سب کے لیے ایک جیسے ہوں گے تو تبدیلی مذہب کا کوئی جواز نظر نہیں آتا، نہ ہی اسپیشل میرجز ایکٹ کے تحت 30 دن پہلے اطلاع دینے کی ضرورت ہوگی اور نہ شادی کے لیے ضروری مذہبی رسومات کے حوالے سے الجھن ہوگی۔ یوں ‘لو جہاد’ کا مفروضہ بھی دم توڑ جائے گا اور اس کے ‘جن’ کو بوتل میں بند کرنے کے لیے قانون سازی کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔

دہلی کے وکیل صارم نوید اپنی حالیہ تحریر میں لکھتے ہیں کہ

یقیناً ‘لو جہاد’ کے مفروضے پر یقین رکھنے والے اس یکساں سوِل کوڈ سے خوش نہیں ہوں گی۔ اس افسانے کے پسِ پردہ پدر شاہی، قبائلی، فرقہ پرستانہ، گروہی اور رجعت پسندانہ سوچ ہے۔ دہلی کی عدالتِ عالیہ (ہائی کورٹ) نے بھی حال ہی میں کہا ہے کہ "مذہب، برادری اور ذات کی روایتی رکاوٹیں آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہیں،” اس لیے یہ یکساں سوِل کوڈ کے لیے بہت اچھا وقت ہو سکتا ہے لیکن ایسا ترقی پسندانہ یکساں سوِل کوڈ فی الحال ظاہر ہوتا نظر نہیں آ رہا۔

اس سوِل کوڈ کے حق میں اور خلاف کئی آرا موجود ہیں۔ مرکزی حکومت اس حوالے سے اپنا ایجنڈا رکھتی ہے، جس نے 2019ء کے انتخابات سے پہلے منشور میں اس کا اعلان کیا تھا۔ حکومت کے حامی دعویٰ کرتے ہیں کہ یکساں سوِل کوڈ ناگزیر ہے۔ مذہبی اقلیت بڑے پیمانے پر اور کسی حد تک لادین خیالات رکھنے والے بھی اس مجوزہ قانون کے چند پہلوؤں پر تنقید کرتے ہیں، کیونکہ اس سے اقلیتوں کو مذہبی رسومات اور اپنے پرسنل لاز کے حوالے سے ملنے والی آئینی ضمانتوں کو ٹھیس پہنچے گی۔ یہ بحث کافی پرانی ہے اور اسے دوبارہ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ تصور کرتے ہیں کہ یکساں سوِل کوڈ آنے والا ہے، تو یہ کیسا لگے گا؟

یکساں سوِل کوڈ کے حامی کافی جذباتی نظر آتے ہیں، لیکن ابھی تک کوئی وضاحت سامنے نہیں آ سکی کہ یہ قانون ہوگا کیسا؟ عوامی رائے اور ہندوتوا کی جانب میلان رکھنے والوں کے رویّے سے تو لگتا ہے کہ یکساں سوِل کوڈ ہندو قوانین کے سائے تلے جنم لے رہا ہے

صارف کہتے ہیں کہ بھارت میں 1955ء سے پہلے، ہندو قوانین میں اصلاح سے پہلے، خواتین کو طلاق کا، جائیداد کا، یا ذاتی خود مختاری و آزادی کا حق حاصل نہیں تھا جو اب اٹل بن چکا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سب سے اہم وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے سرِ عام بیانات کے مطابق خواتین کو حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے، خود مختاری کی نہیں اور حال ہی میں ایک اور معزول وزیر اعلیٰ پھٹی جینز پہننے سے قومی سلامتی کو درپیش خطرات پر تشویش کا اظہار بھی کیا گیا ہے، تو کیا بی جے پی اپنی صفوں میں موجود ایسے حلقوں کو کیسے قائل کر پائے گی۔

بی جے پی کے "نظریاتی بزرگ” راشٹریہ سوایم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) والے اب بھی اپنی صفوں میں خواتین کو قبول نہیں کرتے، ایک الگ ویمنز ونگ رکھتے ہیں جو اثر و رسوخ کے حوالے سے مردوں کے قریب قریب بھی نہیں اور نہ ہی ان جیسا مقام یا موجودگی رکھتا ہے۔ بی جے پی کی خواتین رہنما خواتین پر تشدد کے حوالے سے تبھی بات کرتی ہیں جب اس سے سیاسی فائدہ سمیٹنا ہو اور اس وقت تو بالکل نہیں جب یہ واقعات بی جے پی کے زیرِ اقتدار ریاستوں میں ہوں۔ اس لیے بی جے پی کے زیرِ اقتدار صنفی انصاف پر مبنی یکساں سوِل کوڈ کو تو بھول ہی جائیں۔

ان کا کہنا ہے کہ چلیں اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یکساں سوِل کوڈ کے بارے میں بی جے پی کا تصور صنفی لحاظ سے واقعتاً مبنی بر انصاف ہے اور شادی کے قوانین، وراثت، نان نفقہ، سرپرستی اور گود لینے کے حوالے سے مختلف معاملات کی مذہبی شناخت کو ختم کرتا ہے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ ‘لو جہاد’ کے بیانیے سے اس کا کیا تعلق ہے؟ کیا ایک ایسے ملک میں ‘لو جہاد’ کے شوشے چھوڑے جا سکتے ہیں کہ جہاں یکساں سول کوڈ کے تحت مختلف مذہب سے تعلق رکھنے والوں میں شادی بھی محض شادی ہی ہوتی ہے، جس میں ریاست کوئی امتیاز نہیں برتتی۔

ہندوتوا کے لیے ووٹ دینے والے افراد کے ذہن سے جنم لینے والے یکساں سوِل کوڈ کا انجام ناکامی ہے۔ یہ آئینی و قانونی پرکھ پر پورا نہیں اترے گا۔ امید کی جا ستکی ہے کہ یہ انتخابات مقبول جمہوری امتحان پر بھی پورا نہیں اترے گا۔ ہمیں صنفی بنیادوں پر انصاف کی ضرورت ہے اور وہ بھی ابھی اور اسی وقت۔ اس پر کوئی سودے بازی نہیں، بات کوئی بات چیت نہیں۔ پھر ہمیں ایسی حکومت کا سامنا ہے جو آزادی کے نام پر آزادئ اظہار پر قدغن لگاتی ہے، قومی تحفظ کے نام پر ہمیں عدم تحفظ کا نشانہ بناتی ہے اور اتحاد کے نام پر ہمیں تقسیم کرتی ہے۔ اس حکومت پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا، یہاں تک کہ یکساں سوِل کوڈ کے معاملے پر بھی۔

آخر میں وہ لکھتے ہیں کہ

بھارت میں کسی بھی برادری کی خواتین کا حال مردوں سے بھی بد تر ہے۔ موجودہ حکومت اور اس کے نظریے سے 66 سالوں سے خواتین کے حقوق اور خود مختاری پر ہونے والی پیش رفت کو خطرہ لاحق ہے اور ہو سکتا ہے کہ اب تک ہونے والی تمام پیش رفت کا خاتمہ ہو جائے۔ صورتِ حال ہر گز اچھی نہیں۔ ہندوتوا کے زیر نگیں یکساں سوِل کوڈ کا بیانیہ صورتِ حال کو مزید گمبھیر بنا سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے