امریکا کا انخلا اور افغان خواتین کو لاحق خطرات

نمایاں افغان خواتین ، ان کے حامیوں اور وکلا کو خصوصی ویزے جاری کرنے کا مطالبہ

امریکا افغانستان میں بدلتے ہوئے حالات اور ممکنہ طور پر ان کی زد میں آنے والے افراد، بالخصوص خواتین سیاست دانوں، صحافیوں اور سرگرم کارکنوں کو فوری طور پر ویزے جاری کرنے پر غور کر رہا ہے کیونکہ خطرہ ہے کہ وہ طالبان کے ہدف کا نشانہ بن سکتی ہیں۔

انسانی حقوق کے مختلف ادارے امریکی محکمہ خارجہ اور وائٹ ہاؤس سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ایسی خواتین اور ان کے حق میں آواز اٹھانے والوں کے لیے 2,000 ویزے مختص کرے تاکہ امریکی فوج کے انخلا کے ساتھ ساتھ ایسے ہزاروں افغانوں کو نکالنے کی بھی پالیسی بنائی جائے۔ امریکی حکومت کے موجودہ منصوبے میں صرف وہ ترجمان شامل ہیں جو غیر ملکی افواج کے ساتھ کام کرتے تھے۔

ایک عہدیدار کے مطابق بائیڈن انتظامیہ نہ صرف ایسی خواتین بلکہ ان مردوں اور اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد پر بھی غور کر رہے ہیں کہ جن کا تعلق ایسے شعبوں سے تھا جنہیں اب خطرہ لاحق ہے۔

انسانی حقوق کے اداروں نے وائٹ ہاؤس اور محکمہ خارجہ پر زور دیا ہے۔ افغانستان پر امریکی قبضے کے دوران گزشتہ دو دہائیوں میں جن خواتین نے نمایاں مقام حاصل کیا، ان کے حامی اور وکلا کو ایسی کسی بھی فہرست کا لازماً حصہ بنانا چاہیے۔

دنیا بھر میں حکومتوں میں خواتین کی نمائندگی کے لیے کام کرنے والے ادارے ‘میناز لسٹ’ کی ڈائریکٹر ٹریسا کاسل کہتی ہیں کہ

اب زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں اور طالبان کی جانب سے خواتین رہنماؤں کو ہدف کا نشانہ بنایا اور مارا جا رہا ہے۔ انہیں اپنی موت کا خطرہ لاحق ہے۔

یہ گروپ اور دیگر ادارے ایسے ویزوں کی سفارش کر رہے ہیں جو خطرے سے دوچار افغانوں کے لیے فوری پروسس کیے جائیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس کے لیے محکمہ خارجہ فاسٹ ٹریک پروگرام شروع کرے اور امریکا ایسے افراد کو محفوظ کرنے کے لیے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر بھی اقدامات اٹھائے۔

وائٹ ہاؤس نے ابھی تک خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے افغانوں کے لیے ویزے جاری کرنے کے حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ البتہ انسانی حقوق کے معروف عالمی ادارے ‘ہیومن رائٹس واچ’ نے اپریل میں ہی کہہ دیا تھا کہ وہ خواتین جو ٹیلی وژن اور ریڈیو پر آتی ہیں، انہیں خاص طور پر بہت زیادہ خطرہ ہے۔

خواتین رپورٹرز کو نہ صرف اس لیے نشانہ بنایا جا سکتا ہے کہ وہ ایسے معاملات پر بات کرتی ہیں بلکہ ان سماجی اقدار کی وجہ سے بھی کہ جو خواتین کو کسی عوامی کردار میں اور گھر سے باہر کام کرتے نہیں دیکھنا چاہتیں۔

یاد رہے کہ طالبان کے دورِ حکومت میں افغانستان میں خواتین کو تعلیم حاصل کرنے یا کام کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس کے علاوہ انہیں اپنا جسم مکمل طور پر ڈھانپنے اور کسی محرم مرد کے بغیر گھر سے باہر نہ نکلنے کا حکم تھا، جس کی خلاف ورزی پر سخت سزا بھی دی جاتی تھی۔

One Ping

  1. Pingback: فکر مند افغان لڑکیاں اسکول کھلنے کی منتظر - دی بلائنڈ سائڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے