اسکاٹ لینڈ کی پاکستانی نژاد خاتون، جن کا شوق منافع بخش کاروبار میں بدل گیا

ہمیشہ کچھ منفرد کرنا چاہتی تھی اور بالآخر ایسا کام مل گیا ہے جو مجھے پسند ہے، مشعل نیازی

جو کام شوقیہ شروع کیا تھا، اب ایک منافع بخش کاروبار میں بدل چکا ہے اور مشعل نیازی کا مئی میں شروع ہونے والا بیکنگ بزنس اب اپنے عروج پر ہے۔

اسکاٹ لینڈ کے ساحلی شہر ڈنڈی میں رہنے والی 27 سالہ مشعل کہتی ہیں کہ وہ ہمیشہ سے ایک ‘فوڈی’ تھیں بلکہ ان کا تعلق ایسے خاندان سے ہے جو بہت بڑا ہے اور کھانے پینے کا بہت شوقین۔

مشعل کا اصل تعلق پاکستان سے ہے اور ان کا بلاگ اور انسٹاگرام پیج بھی دراصل ان کے بنائے گئے ان گنت پکوانوں اور شہر میں کھانے پینے کی بہترین جگہوں کے بارے میں تھا، بالآخر یہی وہ کام ثابت ہوا جس کے لیے انہوں نے اپنی کُل وقتی ملازمت چھوڑ دی۔ "یہ ایک خواب کی تعبیر ہے،” انہوں نے کہا۔

وہ بتاتی ہیں کہ Curations Dundee کا آغاز ایک فوڈ بلاگ کی حیثیت سے ہوا تھا، جس میں یہی ہوتا تھا کہ میں کیا کھا رہی ہوں، کیا بنا رہی ہوں وغیرہ۔ میرا تعلق ایک بڑے خاندان سے ہے جو کھانے پینے کا بہت شوقین ہے۔ پاکستان میں کھانا ایسی چیز ہے جو خاندان کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے۔ ہمارے خاندان میں کھانے پینے کو بہت اہمیت حاصل ہے۔”

رواں سال مئی میں انہوں نے Curations Dundee لانچ کیا۔

میں بہت نروس تھی، لیکن رسپانس بہت ہی جاندار تھا۔ زیادہ وقت نہیں لگا اور بہت کم وقت میں ہی میرے پاس اتنے کسٹمر ہو گئے کہ میں نے اپنی ملازمت چھوڑنے اور مستقلاً یہی کام کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

مشعل ڈنڈی یونیورسٹی سے بزنس میں تعلیم حاصل کرنے کے ایک سافٹ ویئر ڈیولپمنٹ کمپنی میں ملازمت کر رہی تھیں۔ "میں ہمیشہ کچھ منفرد کرنا چاہتی تھی اور بالآخر ایسا کام مل گیا ہے جو مجھے پسند ہے اور میں ہمیشہ سے کرنا بھی چاہتی تھی۔”

ان کے کیک جار بہت مشہور ہیں جبکہ خاص کُکیز، بقلاوہ، ترامیسو، کسٹم کیک اور دوسرے چیزوں کے آرڈر بھی خوب آتے ہیں۔ ان کا منصوبہ بہت بڑا ہے اور وہ اب اپنے گھریلو کچن کو استعمال کرنے کے بجائے ایک کمرشل کچن کے لیے کام کر رہی ہیں۔

مشعل نیازی کے مشہور کیک جارز

وہ بتاتی ہیں کہ

رسپانس اب تک بہت شاندار رہا ہے۔ شروع میں میں نے صرف 50 جارز کا آرڈر دیا تھا اور سوچا تھا کہ تین مہینے میں فروخت ہو گئے تو اچھا ہے۔ وہ تو ہفتوں میں ہی بک گئے۔ وہ بڑا ہی مصروف وقت تھا، میں تو 48 گھنٹے بغیر سوئے بھی گزارے۔ دن میں ملازمت کر رہی تھی اور رات بھر بیکنگ کرتی۔ پھر چھ سالہ بیٹی عنایہ کو بھی صبح اسکول بھیجتی۔

مشعل اپنے خاندان میں واحد با صلاحیت بیکر نہیں ہیں، ان کی بہن اور پاکستان میں رہنے والی کزن بھی بیکنگ کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ یہ سب ایک دوسرے سے آئیڈیاز شیئر کرتی ہیں، نئے تجربات کرتی ہیں اور کامیابی اور ناکامی کی وجوہات ایک دوسرے کو بتاتی ہیں۔ مشعل کا کہنا ہے کہ "کیک جار کا آئیڈیا بہت ہی زبردست تھا، جو کزن اور بہن نے دیا۔ ترامیسو ہمارے گھر کی خاص ڈش ہے۔ میں نے اٹلی میں قیام کے دوران سیکھی تھی۔ میں بقلاوہ اور دوسری مٹھائیاں بھی بناتی ہوں جو ان سے ذرا مختلف ہیں۔”

لذیذ بقلاوہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے