جان بھی ہے اور انسان بھی ہے

"معاشرے کا قصور ہے کہ بچوں کو 'ہیجڑا' جیسے الفاظ سکھائے جاتے ہیں۔ میں نے خود کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن میں ایسا ہی ہوں اورمیں اسے تبدیل نہیں کرسکتا۔ لوگوں کو مجھے اسی طرح سے قبول کرنا پڑے گا"

دنیا میں کہیں بھی ٹرانسجینڈرز کی زندگی آسان نہیں ہے لیکن دنیا کے مشرقی حصے میں، پسماندہ خیالات اور ضعیف الاعتقادی نے اسے مزید مشکل بنا رکھا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ وہ اپنی زندگی کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں، ٹرانسجینڈرز معاشرے کے منفی رویے اور واضح جنس نہ ہونے سے منسلک بدنامی کا شکار ہیں۔ اگر ایک فقرے میں اس کوبیان کرنا ہو توافسوس کے ساتھ کہنا پڑے گا کہ

ہمارے معاشرے میں  ٹرانسجینڈر اور عزت ایک ساتھ نہیں چلتی ہے۔

اس تلخ حقیقت اور معاشرتی تفریق کے باوجود بہت سے بہادر ٹرانسجینڈر ہیں جیسے فیصل اصغر عرف فیصل فیضی جنہوں نے خود کو اس حقیقت کے ساتھ قبول کیا ہے اوراپنی محنت کی بدولت اب عزت نفس کی زندگی گزار رہے ہیں۔

دی بلائنڈ سائیڈ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں، فیضی نے اپنی زندگی میں پیش آنے والے چیلنجز اور کامیابیوں کو تفصیل سے شیئر کیا۔

فیصل اصغر عرف فیضی

فیصل ایک سرٹیفائیڈ ٹرانس پروفیشنل بیوٹی تھراپسٹ ہیں ، جو لاہور میں مقیم ہیں۔  اس وقت وہ ایک فری لانس میک اپ آرٹسٹ کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں جس نے انڈسٹری میں نام کمایا ہے۔ وہ اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے اور بین الاقوامی فنکاروں کے ساتھ کام کرنے کے لئے بیرون ملک منتقل ہونے کے  خواہش مند ہیں۔

فیصل کے چار بھائی اور ایک بہن ہے۔ وہ پانچویں جماعت میں تھا جب اسے پتا چلا کہ اس کی دوہری شخصیات ہیں لیکن وہ فیصلہ نہیں کرسکتا تھا کہ اسے کون سا ہونا ہے۔ جب وہ بڑا ہوا تو اس نے محسوس کیا کہ اس کا مادہ حصہ غالب ہے اور اس کی کوئی دلچسپی لڑکوں کی طرح نہیں ہے۔ اپنی عمر کے دوسرے لڑکوں کے برعکس ، وہ میک اپ ، مہندی ، لڑکیوں کی طرح کی ڈریسنگ   کرنا پسند کرتا تھا اور لڑکی کی طرح ہی زندگی گزارنا چاہتا تھا۔

"میرے والدین ہمیشہ سے میرا ساتھ دیتے رہے ہیں۔ لیکن میں اپنی ماں سے زیادہ قریب ہوں۔ میرے والد قدرے سخت ہیں اور جب بھی وہ میری غیر معمولی عادات کی وجہ سے ناراض ہوجاتے تھے  تومیری والدہ فوراً مداخلت کرکے میری حفاظت کرتی تھیں”۔

فیصل نے ضلع قصور کے چھوٹے سے گاؤں میں آنکھیں کھولیں۔ کم عمری میں ہی اس کی والدہ نے اسے اپنے ماموں کے ساتھ رہنے کے لئے لاہور بھیج دیا۔وہ اپنی اچھی دیکھ بھال کا سہرا اپنی خالہ کو دیتا ہے جنہوں نے اسے اچھی طرح سے پالا اور اس کو زیادہ  مطالعہ کرنے کی ترغیب دی۔ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہونے کے ناطے ، فیصل کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں تھا،  لہذا اس نے خود ہی ماس کمیونیکیشن کے شعبے کا انتخاب کیا۔

"میرے والدین نے مجھے لاہور بھیج کر مجھ پر احسان کیا۔ میری خالہ جانتی تھیں  کہ میں مختلف ہوں  اس لیے میری حفاظت کے طور پر مجھےدوسرے بچوں کے ساتھ گلی میں نہیں کھیلنے دیتی تھیں۔ میرا خواب تھا کہ پنجاب یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹر کروں، جو خدا کے فضل و کرم سے میں نےمکمل کیا”۔

فیصل نے اپنی یونیورسٹی کی زندگی کو ایک چیلنج کے طور پر لیا۔ کالج کے بعد اس کے والدین نے اسے واضح کردیا تھا کہ آگے کا خرچہ اس کو خود دیکھنا ہوگا، چنانچہ اس نے یونیورسٹی فیس ادا کرنے کے لئے ایک ریستوران میں بطور ریسپشنسٹ اور ویٹر کام کرنا شروع کردیا۔ وہ یونیورسٹی کے بعد سیدھاریستوران جاتا تھا اور اکثر صبح 2 بجے گھر واپس آتا تھا۔ ایک بار ، اسے لوٹنے اور اس کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کی کوشش کی گئی ، خوش قسمتی سے راہگیروں نےاسے  بچا لیا۔

اپنی زمانہ طالب علمی میں ، فیصل کومسلسل مذاق کا سامنا کرنا پڑا، اس کو سمجھ نہیں آتا تھا کہ وہ اس صورتحال سے کیسے نمٹے سوائے اس کہ وہ اپنے آپ کو بچا کر رکھے۔ یونیورسٹی میں بھی ، اسے مخلتف ناموں سے پکارا جاتا تھا ، ٹرول کیا جاتا تھا  اور اس کا مذاق اڑایا جاتا تھا ، جس پر وہ اکیلا  لان میں بیٹھا رہتا تھا ، اپنی بے بسی پر روتا تھا، حتی کہ اسے اپنے آپ کو تسلی بھی خود دینا پڑتی تھی کیوں کہ اس کے کوئی دوست نہیں تھے۔

"ایک دن ، لیکچر کے دوران کسی نے مجھ پر آواز کسی اور میرا مذاق اڑایا، جس  کا  میرے پروفیسر (جو مجھ پر بہت مہربان تھے ) نے نوٹس لیا اور مجھے روسٹرم پر بلایا۔ میں نے اپنےکلاس فیلوز سے بات کرنے کا فیصلہ کیا اور اُس موقع پر ایک چھوٹی سی تقریر کی، میں نے ان پر واضح کیا کہ اس سے قطع نظر کہ انہوں نے مجھے کتنا تنگ کیا،لیکن میں کہیں نہیں جارہا۔ اس کے بعد حالات میں کافی بہتری آئی”۔

 

دو سال بعد، فیصل نے اپنی ڈگری مکمل کی اور چاندی کا تمغہ حاصل کیا۔ وہ ان چند طلبا میں سے ایک تھا جن کو کانووکیشن کے دوران اسٹیج پر مدعو کیا گیا اور تالیاں بجا کر ڈگری اور میڈلز دیئے گئے۔ مگرافسوس کی بات یہ ہے کہ، امتیازی حیثیت سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے باوجود، وہ اپنی صنف کی وجہ سے سرکاری ملازمت حاصل نہ کرسکا۔ اور جب اس نے پرائیویٹ ملازمت کے حصول کی کوشش کی تو اسے ہراساں کیاگیا اور اس کا مذاق اڑایاگیا۔ جب اسے نوکری نہ مل سکی  تو اس نے اپنی فطری صلاحیتوں کا استعمال کیا اور یوٹیوب کی مدد سے میک اپ اور ہیئراسٹائلنگ سیکھ لی۔ 2018 میں، اس نے حکومت پاکستان کی جانب سے NAVTTC ٹیسٹ کوپاس کیا اور بیوٹی تھراپی میں ڈپلوما حاصل کیا۔

 

آج فیصل ملک کا ایک نامورسینئر میک اپ آرٹسٹ ہے۔ فیشن  شوز ہوں یا شادی کا میک اپ ، فیضی کے نام کا طوطی بولتا ہے۔ وہ ملک کے مشہور ڈیزائنرز اور ماڈلز کے ساتھ کام کرچکا ہے۔

"میری سب سے بڑی حوصلہ افزائی میری تعلیم تھی۔ میں نے تمام اداروں میں اپنے اساتذہ سے سیکھا لیکن سب سے اہم سبق جو میں نے سیکھے وہ معاشرے سے تھے”۔

فیصل نے بجا طور پر شکایت کی ہے کہ معاشرے کے متعدد اصول ابھی بھی ایسے  ہیں جو ان جیسے لوگوں کو پیچھے رکھتے ہیں۔ جب بھی وہ کلائنٹس  کے گھروں میں ان کا میک اپ کرنے جاتا ہے تو وہاں موجود بچے ایسے سوالات پوچھتے ہیں جیسے یہ وہ ہے یا وہ؟ والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو یہ سکھائیں کہ کیا پوچھنا مناسب ہے اور کیا نہیں۔ ایک بار میٹرو بس پر سفر کرتے ہوئےاسکول کے کچھ طلبا نے اس سے نامناسب سلوک کیا، اس کو دھکا دیا اور اس کا بیگ اس طرح پکڑا جیسے وہ کوئی  کھلونا تھا۔

"میں رونا چاہتا تھا اور میں نے یہ بھی سوچا کہ شاید یہ واقعی میری غلطی ہے کہ  بچے بھی میرا مذاق اڑا رہے ہیں ۔ لیکن درحقیقت یہ معاشرے کا قصور ہے کہ انہیں ‘ہیجڑا’ جیسے الفاظ سکھائے جاتے ہیں۔ میں نے خود کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن میں  ایسا ہی ہوں اورمیں  اسے تبدیل نہیں کرسکتا۔ لوگوں کو مجھے اسی طرح سے قبول کرنا پڑے گا "۔

معاشرے کے قابل نفرت رویے  فیصل کو مسجد میں بھی نہیں بخشا۔

“ایک بار میں مسجد میں امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا تھا۔ نماز کے بعد، ایک بزرگ شخص نے جو اپنے ظاہری حلیے سے مناسب اور تعلیم یافتہ نظر آرہے تھے، میری طرف اشارہ کرکے ایک ساتھی سے پوچھا کہ میرے ساتھ کھڑے ہو کر نماز پڑھنا کیسا ہے؟ ان کے بیان نے مجھے بہت تکلیف دی”۔

فیصل کے مطابق ، اگرچہ حالیہ ماضی میں ٹرانسجینڈر برادری کچھ حقوق محفوظ کرنے میں کامیاب رہی ہے ، لیکن ان کے نفاذ کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اگر انہیں ملازمتیں مل جاتی ہیں تو بھی ان کو ہراساں کرنے اور بے عزت کرنے سے کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے۔

"ابھی بھی بہت سارے سوالیہ نشان ہیں۔ کیا لوگ اس حقیقت کو ترک کردیں گے کہ ہم ٹرانسجینڈر ہیں اور ہمیں قبول کرلیں گے”۔

ایسی  بہت سی وجوہات کی بنا پر ، فیصل پاکستان سے ہٹ کر مغرب میں ایسی جگہ زندگی  بسر کرنا چاہتا ہے جہاں صنف سے زیادہ  کام اور تعلیم کا معیار اہم ہو۔ فی الحال وہ خود بیرون ملک جانا افورڈ نہیں کرسکتا لیکن اگر اس کو موقع ملا تو وہ ضرور اس کا فائدہ اٹھائے گا۔

فیصل اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہتا ہے اور ان کے ساتھ رہنا پسند کرتا ہے لیکن وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ بات چیت نہیں کرتا اور خاندانی محفلوں  میں بھی شاذ و نادر ہی شرکت کرتا ہے۔ وہ ان سے پرہیز کرتا ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ اس کی وجہ سے اس کے والدین کو  کوئی تکلیف دہ یانا گوارتبصرہ سننا پڑے۔ اس کا خیال ہے کہ کوئی بھی اپنے گھر والوں کا متبادل نہیں ہوسکتا لیکن اپنی کمیونٹی  کے لوگوں کے ساتھ نہ ہونے کو بھی وہ بہت محسوس کرتا ہے۔

"بہت سی ایسی باتیں ہیں جو میں اپنے کنبے میں کسی سے بھی شیئر نہیں  کرسکتا کیونکہ وہ سمجھ ہی نہیں پائیں گے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مجھے اپنے جیسا کوئی دوست مل جاتا ہے تو میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں  اور  اس کے ساتھ وقت گزارکر مجھے واقعی خوشی ہوتی ہے "۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے