کیا عرب بہار کی سرگرم خواتین تونس کو تبدیل کر پائیں گی؟

عرب بہار نے کئی لحاظ سے خطے کے عوام کو حیرت زدہ کیا۔ یہ تبدیلی کا عمل در اصل 17 دسمبر 2010ء کو تونس سے شروع ہوا تھا کہ جہاں ایک خوانچہ فروش محمد بو عزیزی نے حالات سے تنگ آ کر خود سوزی کی تھی۔

ان کے اس قدم سے شروع ہونے والا عوامی احتجاج جلد ہی مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے دوسرے عرب ممالک تک بھی پھیل گيا، جو 20 ویں صدی کے وسط کے بعد اس خطے کی سب سے ڈرامائی سیاسی تبدیلی تھی۔

کیا بو عزیزی کی خود سوزی ایک سیاسی احتجاج تھا یا کچھ اور؟ اس سے فرق نہیں پڑتا لیکن انہوں نے ایسی آگ کو بھڑکا دیا تھا جو مصر، لیبیا، شام اور یمن سمیت دیگر عرب ممالک تک پھیل گئی اور ‘عرب بہار’ کے نام سے مشہور ہوئی۔

معاشی تنگی، غربت، بد عنوانی، آمرانہ و جابرانہ حکومتیں اور بڑھتی بے روزگاری لاکھوں مایوس افراد کو سڑکوں پر لے آئی۔ بہت سے ممالک میں مظاہرین نے آمروں کا اقتدار ختم کر دیا۔

واقعات کے اس سلسلے کو مختلف ممالک میں مختلف نام دیے گئے۔ عرب بہار، انقلابِ یاسمین، عرب بیداری، عرب انقلاب، عرب بغاوت، جمہوری انقلاب، اسلامی بیداری، انٹرنیٹ انقلاب، ٹوئٹر انقلاب، فیس بک انقلاب یہاں تک کہ وکی لیکس انقلاب بھی۔

ایک اور پہلو جس نے دنیا بھر کے مبصرین کو حیرت زدہ کر دیا وہ مظاہروں میں خواتین کی قابلِ ذکر موجودگی تھی، چاہے وہ بحیثیت ایک سرگرم کارکن ہو، بلاگر یا محض سڑکوں پر نکلنا ہی۔ خواتین انصاف طلب کرنے اور اپنے شہری حقوق منوانے کے لیے متحد نظر آئیں۔

عرب بہار کے دوران خواتین کی سرگرمیاں اس عالمی نقطہ نظر سے یکسر مختلف تھیں کہ مسلمان خواتین مظلوم ہیں اور ان کی آواز نہيں سنی جاتی۔

آج عرب بہار کے آغاز کو ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور تونس جیسے چند ملکوں میں خواتین اپنے مطالبات کے حق میں نسبتاً کامیاب نظر آتی ہیں لیکن دیگر ممالک میں ان کے اہداف بڑے پیمانے یا پھر سرے سے ہی حاصل نہیں ہو پائے۔

روایتی طور پر مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے چند ممالک میں خواتین کو ایک حد تک معاشرتی و شہری حقوق دیے گئے تھے۔ یہ حقوق حکومت کے خلاف ایک طویل اور مشکل جدوجہد کے بعد ملے تھے۔

اس دوران خطے میں بہت سی آمر حکومتیں خواتین کے حقوق، مثلاً ووٹ ڈالنے کے حق، کو عالمی برادری کی نظر میں اپنی حیثیت کو قانونی ثابت کرنے کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال کرتی رہیں۔

خواتین، جن کی آبادی تقریباً آدھی ہے، کی حمایت حاصل کرنے کے لیے یہ آمر حکومتیں خواتین اور ان کے حقوق کو عالمی ‘گُڈ گورننس’ کو ثابت کرنے کے لیے ایک پروپیگنڈا ٹول کی حیثیت سے دیکھ رہی تھیں۔

عرب بہار کے آغاز پر عرب ممالک میں سے تونس کی خواتین کی حالت کئي لحاظ سے بہتر تھی، مثلاً خواندگی، اعلیٰ تعلیم، عوامی شرکت اور افرادی قوت میں نمائندگی کے لحاظ سے دیگر عرب ریاستوں کے مقابلے میں تونس کی خواتین بہتر نظر آتی تھیں۔

تب خواتین کے حقوق کی تحاریک بھی مختلف مراحل میں تھیں۔ مثلاً لیبیا اور شام میں تو ان کا کوئی وجود ہی نہیں تھا، مصر میں کمزور اور تونس اور مراکش میں نیم قانونی حیثیت حاصل تھی۔

مراکش اور تونس ہی ایسے ممالک تھے جہاں خواتین مقامی برادری کی سطح پر خواتین کی موجودگی نظر آتی تھی۔ ان کی تنظیمیں سیاسی اشرافیہ کے علاوہ سوِل سوسائٹی کے دیگر شراکت داروں (مثلاً ٹریڈ یونینز اور انسانی حقوق کی تنظیموں) کے ساتھ اتحاد کرنے اور سیاسی و قانونی اصلاحات لانے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔

اس لیے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ بیشتر عرب ریاستوں میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے اصلاحات اوپر سے کیا گيا اور خواتین کی شمولیت کے حوالے سے حکومت کی جانب سے صنفی مساوات کو بہتر بنانے کی حقیقی خواہش کے برعکس اصلاحات سے زیادہ سیاسی عزائم کا تاثر ملتا ہے۔

اس کے باوجود خواتین کو سیاسی و معاشی دونوں میدانوں میں مردوں کے برابر نہیں سمجھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ عرب بہار میں خواتین کا بنیادی مطالبہ جمہوری معاشرے کا قیام تھا کہ جو آزادی، مساوات اور انسانی حقوق پر مبنی ہو۔

تونس میں ابتدا میں مظاہرے محدود اور بے ترتیب تھے۔ سکیورٹی فورسز شروع میں انہیں روکنے کی کوششیں کرتی دکھائی دیں، لیکن جیسے جیسے مظاہروں میں مزید مرد اور خواتین شامل ہوتی گئیں یہ واضح ہوتا چلا گيا کہ موجودہ حکومت کو سنگین چیلنج درپیش ہے۔ ان مظاہروں کے دوران خواتین کو گرفتار کیا گیا، حراست میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا، لیکن وہ مظاہروں سے دست بردار نہیں ہوئیں۔

مظاہروں میں خواتین کی موجودگی بڑھتی ہوئی دیکھ کر ریاست نے جنسی ہراسگي یہاں تک کہ ریپ کو بھی بطور ہتھیار استعمال کیا گيا۔ یوں جمہوریت کی اس جدوجہد میں ان خواتین سے مردوں کی طرح پوری قیمت ادا کی بلکہ کئی بار تو اس سے بھی زیادہ۔ اس لیے تونس کے مظاہروں میں خواتین کی موجودگی نے آمر حکومت کی قانونی حیثیت کو ایک زبردست چیلنج دیا۔

عرب بہار میں دوسرے ممالک کے برعکس تونس جمہوریت بننے میں کامیاب ہوا۔ عالمی برادری نے ملک کے جمہوریت کے سفر کو سراہا اور اسے عرب دنیا میں "امید کی کرن” قرار دیا۔

ملک کی مضبوط سوِل سوسائٹی قدامت پسند اور سیکولر طاقتوں کے ساتھ مفاہمت کے قابل تھی اور 2014ء میں ایک جدید قومی آئین تیار کیا گیا جس میں مرد اور خزاتین کو مساوی حقوق، اظہار رائے کی آزادی اور سوِل حکومت کی ضمانت دی گئی۔

2011ء میں تونس کی خواتین نے چار اعلیٰ سطحی کمیشنز میں خدمات انجام دی جو عبوری دور میں ملک چلانے کے لیے بنایا گيا تھا۔ اکتوبر 2012ء میں کئی سیاسی جماعتوں نے قومی اسمبلی کے لیے انتخآبات میں حصہ لیا اور اس کی 27 فیصد اراکین خواتین تھیں۔

عرب بہار کے مظاہروں کے آغاز پر تونس کی خواتین شہری و سیاسی منظرنامے پر متحرک نظر آئیں اور خواتین کے حقوق کو ملک میں جزوی حد تک تسلیم کر لیا گیا۔ اس کے عرب بہار کے مظاہروں کی صنفی حرکیات (gender dynamics) پر مثبت اثرات پڑے اور مصر، بحرین، لیبیا، شام اور یمن کے مقابلے میں یہاں خواتین کو کامیابی نصیب ہوئی۔

عرب بہار نے ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین کو تبدیلی کے عمل میں اپنے ہم وطن مردوں کے شانہ بشانہ آگے بڑھنے کا راستہ دکھایا۔ آج بھی ظالم و آمر حکومت کا تختہ الٹنے والی خواتین مردوں کے ساتھ مل کر سماجی، سیاسی و معاشی میدان میں برابر کے حقوق کی جدوجہد کر رہی ہیں۔ عرب بہار میں خواتین کا حصہ ناقابلِ تردید ہے۔

کسی بھی تحریک کے دوران عرب خواتین کے غیر فعال اور سیاسی جدوجہد کے قابل نہ ہونے کا تاثر عرب بہار کے دوران یکسر تبدیل ہو گيا۔ عرب بہار کے دوران تونس کی تاریخ پر ایک نظر ڈال کر کہا جا سکتا ہے کہ تونس عرب بہار کی واحد کامیاب مثال ہے۔ اب بھی امید ہے کہ تونس مستقبلِ قریب میں مطلوبہ سیاسی و معاشی استحکام حاصل کر لے گا۔

One Ping

  1. Pingback: تونس میں پہلی خاتون وزیر اعظم کا تقرر - دی بلائنڈ سائڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے