پاکستان اور خاندانی منصوبہ بندی

پاکستان ایشیا کے ان اوّلین ملکوں میں سے ایک تھا کہ جہاں بین الاقوامی اداروں کی مدد سے خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام کا آغاز ہوا۔ فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن آف پاکستان، جسے اب "رہنما” کہا جاتا ہے، کا قیام 1953ء میں عمل میں آیا تھا۔

پاکستان کے تمام صوبوں کے محکمہ ہائے صحت اقوامِ متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں تاکہ ملک میں خواتین کی تولیدی صحت (reproductive health) کے تحفظ اور فروغ کے لیے کام کیا جا سکے۔ ملکی پالیسیاں عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے معیارات کے مطابق تیار کی گئی ہیں تاکہ ملک بھر میں خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔ بنیادی ہدف یہ ہے کہ خواتین رضا کارانہ طور پر خاندانی منصوبہ بندی کے طریقے اختیار کریں اور یوں آبادی میں کمی لائے جائے۔

پاکستان میں آخری مردم شماری تقریباً 19 سال کے وقفے کے بعد 2017ء میں ہوئی تھی، جس کے مطابق ملک کی کُل آبادی 22.5 کروڑ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال پاکستان کی آبادی میں 29 لاکھ افراد کا اضافہ ہوتا ہے، اس کے باوجود کہ ایک چوتھائی پاکستانی خواتین بچوں کی پیدائش کے درمیان وقفہ چاہتی ہیں یا سرے سے بچے پیدا ہی نہیں کرنا چاہتیں۔

خاندانی منصوبہ بندی کے مراکز عموماً صحت کے بنیادی مراکز (BHUs) سے منسلک ہوتے ہیں۔ ان مراکز میں موجود لیڈی ہیلتھ ورکرز دیہی علاقوں کی خواتین کو سمجھاتی اور تحریک دیتی ہیں کہ وہ خاندانی منصوبہ بندی کے طریقے اختیار کریں تاکہ بچوں کی پیدائش کے درمیان مناسب وقفہ ہو۔ اس کے لیے انجکشن اور ادویات کے استعمال کے علاوہ کسی ڈاکٹر کے ہاتھوں یا ان کی زیر نگرانی امپلانٹس اور ڈیوائسز بھی رکھوائی جاتی ہیں۔

خواتین کے امراض کی ماہر ڈاکٹر انیلا کامل کہتی ہیں کہ تمام تر کوششوں کے باوجود درمیانے اور اونچے طبقے کی خواتین شاذ و نادر ہی خاندانی منصوبہ بندی کے ان مراکز کا رخ کرتی ہیں بلکہ اس کے بجائے وہ نجی کلینکس سے معلومات اور خدمات حاصل کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ "بدقسمتی سے راولپنڈی اور اسلام آباد کے مقامی دوا خانے گولیوں، انجکشن، امپلانٹس یا ڈیوائسز کی کافی رسد نہیں رکھتے۔ ان کا کہنا تھا کہ خاندانی منصوبہ بندی کے اِن مراکز میں جائیں کیونکہ ان کے پاس کافی سپلائی ہوتی ہے لیکن "رہنما” مراکز میں بھی ادویات کی کمی تھی۔

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق مانع حمل معلومات اور خدمات بنیادی انسانی حقوق میں شمار ہوتی ہیں، ہمیں لازماً ان حقوق کا احترام، تحفظ اور تکمیل کرنی چاہیے۔ ڈاکٹر انیلا نے مطالبہ کیا کہ متعلقہ حکام مانع حمل ادویات اور سہولیات کی تمام مقامی  دوا خانوں  پر فراہمی کو یقینی بنائیں تاکہ خواتین  کو اس حق سے محروم نہ رکھا جا سکے۔

One Ping

  1. Pingback: جنگ زدہ علاقوں میں خواتین کی صحت کے لیے 835 ملین ڈالرز کی ضرورت - دی بلائنڈ سائڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے