چین کے خاندانی منصوبہ بندی قوانین مزید نرم، اب تین بچے پیدا کرنے کی اجازت

چین نے اپنے خاندانی منصوبہ بندی کے قوانین کو مزید نرم کر کے اب جوڑوں کو تین بچے پیدا کرنے کی اجازت دے دی ہے، کیونکہ مردم شماری سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ملک میں زائد عمر کے افراد کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔

یہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے ملک میں شرحِ پیدائش کے حوالے سے پالیسی میں ایک نمایاں تبدیلی سمجھی جا رہی ہے۔

چین میں تقریباً 40 سال تک متنازع "ون چائلڈ پالیسی” نافذ رہی، جسے خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے دنیا کے سخت ترین قوانین میں شمار کیا جاتا تھا۔ 2016ء میں اس قانون میں نرمی کی گئی اور جوڑوں کو دو بچے پیدا کرنے کی اجازت دی گئی کیونکہ خدشہ تھا کہ ملک کی افرادی قوت کی عمر تیزی سے بڑھ رہی ہے اور مستقبل میں معاشی جمود کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ لیکن بچے پیدا کرنے کی حوصلہ افزائی کے باوجود قومی ادارۂ شماریات نے گزشتہ ماہ بتایا تھا کہ چین کی سالانہ شرح پیدائش 2020 میں کم ہوتے ہوئے ریکارڈ 1.2 کروڑ تک گر چکی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ملک میں ایک آبادیاتی بحران جنم لینے کا خطرہ ہے اور معیشت کو متحرک رکھنے والے نوجوان کارکنوں کی قلت پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ قومی ادارۂ شماریات کے مطابق چین کی شرحِ پیدائش 1.3 پر کھڑی ہے جو مستحکم آبادی کے لیے درکار سطح سے کم ہے۔

گزشتہ ماہ دہائی میں ایک بار ہونے والی مردم شماری کے نتائج جاری ہوئے ہیں، جن کے مطابق چین کی آبادی 1960ء کی دہائی کے بعد اپنی کم ترین شرح سے بڑھ رہی ہے اور 1.41 ارب تک پہنچی ہے۔

اس کے علاوہ کام کی عمر رکھنے والے افراد کی تعداد میں بھی تیزی سے کمی آئی ہے۔  دہائیوں تک ایک بچے کی اجازت کی وجہ سے چین کا صنفی توازن بھی بگڑا ہے کیونکہ روایتی طور پر چین میں بھی لڑکوں کی پیدائش کو ترجیح دی جاتی ہے اور یوں اسقاط حمل جیسے طریقے اپنائے گئے۔ گو کہ یہ پالیسی گزشتہ چند سالوں میں نرم پڑی ہے لیکن پالیسی سازوں کو جیسی توقع تھی، آبادی میں اتنا اضافہ نہیں دیکھا گیا۔

اس کے علاوہ حالیہ چند سالوں میں شادیوں کی شرح میں کمی نے بھی شرحِ پیدائش گھٹانے میں کردار ادا کیا ہے، کیونکہ ایک معیاری زندگی گزارنے پر اخراجات بڑھتے جا رہے ہیں اس کے علاوہ خود مختار اور تعلیم یافتہ خواتین کی تعداد بھی زیادہ ہو گئی ہے، جو بچے پیدا کرنا نہیں چاہتیں یا یہ فیصلہ دیر سے کرتی ہیں۔

یہ حالات دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت کے لیے سخت معاشی و سیاسی مسائل کا سبب ہیں۔

واضح رہے کہ 2050ء تک چین کی ایک تہائی آبادی بزرگ شمار ہوگی، جس سے ریاست کے اداروں پر دباؤ بڑھے گا کیونکہ وہ پنشن اور صحت عامہ کے ذمہ دار ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے