کھیلوں میں خواتین کی نمائندگی کیوں ضروری ہے؟

بوسنیائی نژاد امریکی پروفیشنل باسکٹ بال کھلاڑی اندرا کالیو نے 2016ء میں اسما البداوی سے رابطہ کیا کیونکہ انہیں حجاب پہننے کے بعد باسکٹ بال کھیلنے سے روک دیا گیا تھا۔ تب انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس معاملے کو انٹرنیشنل فیڈریشن آف باسکٹ بال (FIBA) تک لے جائیں گی تاکہ قوانین میں تبدیلی ہو سکے۔

دنیا کی زیادہ تر اسپورٹس فیڈریشنز کے قوانین میں حجاب کا ذکر موجود نہیں یا پھر اس پر کوئی پابندی نہیں، لیکن چند کھیلوں کے قوانین میں نسبتاً عام لفظ ‘ہیڈ گیئر’ کا استعمال کر کے اس پر پابندی لگائی گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ حجاب پہننے والی خواتین، یا پگڑی و دیگر مذہبی علامات سر پر رکھنے والی خواتین ان کھیلوں میں حصہ نہیں لے سکتیں۔ لیکن اصل چیلنج محض قانون کی تبدیلی نہیں تھا، بلکہ مسلمان خواتین کی قابلیت و اہلیت کے بارے میں عام تاثر سے نمٹنے کا بھی تھا کہ وہ کیا کر سکتی ہیں، اور کیا نہیں کر سکتی، بشمول باسکٹ بال کھیلنے کے۔

اسما جلد ہی باسکٹ بال میں حجاب اور دیگر ‘ہیڈ گیئرز’ کے استعمال پر عائد پابندی ختم کرنے کے لیے توانا آواز بن گئیں۔ بالآخر چار سال کی جدوجہد کے بعد ‎#FIBAAllowHijabCampaign مہم کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور اس قانون کا خاتمہ ہو گیا۔

اسما البداوی کہتی ہیں کہ جب مجھے پتہ چلا کہ ہم جیت گئے ہیں تو مجھے ان لڑکیوں کے بارے میں سوچ سوچ کر خوشی ہو رہی تھی کہ جنہیں اب کھیلنے کا موقع ملے گا۔ کبھی کبھار میں سوچتی ہوں اور یقین نہیں آتا کہ ہم نے ایسا کر دکھایا۔ میں تو ایک معمولی سی شخصیت ہیں، ایک چھوٹی سی آواز، لیکن جب ہم نے اپنی آوازیں ملائیں تو کہیں بلند صدا ابھری اور بالآخر تاریخ بدل گئی۔

اس مہم کی بدولت سر ڈھانپنے والی مسلمان خواتین کے لیے دوسرے کھیلوں میں شرکت بھی ممکن ہوئی اور اس غلط فہمی اور تاثر کو بھی چیلنج کرنے میں مدد ملی کہ حجاب کرنے والی مسلم خواتین "مظلوم” ہوتی ہیں۔

اسما کہتی ہیں کہ "مسلم برادری سے باہر بہت سے ایسے لوگ ہیں جو نہیں سمجھے کہ مسلمان خواتین کے لیے شرم و حیا کی کتنی اہمیت ہے اور اگر وہ حجاب کا انتخاب کرتی ہے تو وہ کہتے رہتے ہیں کہ آخر اسے اتار کیوں نہيں دیتیں؟۔

پھر جب کھیل کا معاملہ آتا ہے تو خواتین کو مقابلوں میں شرکت کے لیے ایک طویل جنگ لڑنا پڑتی ہے، جس میں انہیں جنسی شناخت کے شرمناک عمل سے بھی گزرنا پڑتا ہے، صرف یہ یقینی بنانے کے لیے کہ وہ مرد نہیں ہیں۔

ایک وقت تھا جب خواتین کو اولمپک گیمز دیکھنے تک کی اجازت نہیں تھی، جن کا آغاز 1894ء میں ہوا تھا۔ تب یہ صرف مرد کھلاڑیوں تک محدود تھے۔ 1900ء میں خواتین کو پہلی بار کھیلوں میں شرکت کی اجازت ملی لیکن تب بھی انہیں ٹریک اینڈ فیلڈ جیسے اہم کھیلوں سے باہر رکھا گیا۔ ایتھلیٹکس میں میڈل حاصل کرنے کے لیے خواتین کو مزید 28 سال لگ گئے، تب جا کر انہیں 100 میٹرز، 4×100 میٹرز، ریلے، ہائی جمپ، ڈسکس اور 800 میٹر دوڑ میں کھیلنے کی اجازت ملی۔

وہ کھیل جنہیں عموماً مردوں کا کھیل سمجھا جاتا ہے، ان میں خواتین کی تعداد ویسے ہی زیادہ نہیں ہے، مسلم خواتین تو اور بھی کم ہیں، جو پہلے ہی کئی عام غلط فہمیوں اور غلط تاثرات کی شکار ہیں۔ کوئی مقام حاصل کرنے کے لیے انہیں کئی سماجی، مذہبی اور ذاتی رکاوٹوں کو عبور کرنا پڑتا ہے۔ اسما کہتی ہیں کہ جب آپ کسی ایک پورے طبقے کو باہر کرتے ہیں تو معاشرہ کئی باصلاحیت افراد سے محروم ہو جاتا ہے۔ بحیثیتِ ادارہ یہ اسپورٹس فیڈریشنز کے لیے اہم ہے کہ وہ خواتین کی زیادہ سے زیادہ نمائندگی کے لیے ایک جامع ماحول بنائے۔

ذرائع ابلاغ پر خواتین کو کس طرح پیش کیا جاتا ہے، اس کی بھی اہمیت ہے، انہیں بھی ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔ مثلاً کسی کے بارے میں کہنا کہ "یہ خواتین کی یوسین بولٹ ہیں،” بظاہر تو تعریف لگتی ہے لیکن یہ ایسا کہنے کا دوسرا طریقہ ہے کہ کھیل میں اصل معیار تو مرد ہیں۔ پھر خواتین کھلاڑیوں کی جنسیت کو نمایاں کرنا اور اس طرح پیش کرنا کہ توجہ کھلاڑیوں کے جسموں پر مرتکز ہو، بجائے اس کے کہ کھیل کی صلاحیتوں کو دیکھا جائے، یہ سب رکاوٹیں ہیں جو خواتین کو اعلیٰ ترین مقام تک پہنچنے سے روکتی ہیں۔ اسما کہتی ہیں کہ "کئی خواتین کھلاڑیوں کو معاشرہ قبول نہیں کرتا اور انہیں میڈیا میں کوریج بھی نہیں ملتی، اگر وہ خواتین کے روایتی کھیلوں میں شرکت کریں۔ اگر ایک خاتون مردوں کے کھیل میں آنے کی ہمت کرتی ہے تو فوراً اس کی جنسیت پر سوال اٹھتا ہے۔”

کھیل سماجی و ثقافتی لحاظ سے اہمیت رکھتے ہیں۔ کھیل کھیلنے والی لڑکیوں اور خواتین میں حوصلہ اور خود اعتمادی زیادہ اور ذہنی تناؤ کم ہوتا ہے۔ ایک کھیل کھیلنے سے آپ کو ٹیم ورک، ہدف کے تعین، کارکردگی میں بہتر سے بہترین کے حصول اور کامیابی کے حوالے سے دیگر رویّوں کے بارے میں سیکھنے کو ملتا ہے جو عملی زندگی میں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ لیکن کھیلوں کے باضابطہ و غیر رسمی اصول مثلاً ہیڈ گیئر پر پابندی، خواتین کھلاڑیوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہیں آور یہی وجہ ہے کہ اسما جیسی آوازیں اٹھتی ہیں۔

اسما کہتی ہیں کہ "جب آپ حجاب پہنتی ہیں تو آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ آپ صرف اپنی نمائندگی نہیں کر رہیں، خاص طور ایسی جگہ جہاں خواتین کبھی حجاب پہنے نظر نہیں آتیں۔ یہاں آپ اپنی بہترین کارکردگی پیش کرنا چاہتی ہیں کیونکہ آپ یہ احساس دلانے کی خواہاں ہیں کہ یہ لڑکیاں کچھ بہترین کر رہی ہیں اور میڈیا میں ہم ان کے بارے میں جو سنتے ہیں وہ درست نہیں۔

3 Pings & Trackbacks

  1. Pingback: اولمپکس کا تاریخی آغاز، تقریباً ہر ملک کا پرچم خاتون کے ہاتھوں میں تھا - دی بلائنڈ سائڈ

  2. Pingback: فاطہ حسین، پاکستان کی نمبر ایک خاتون جیولن تھرو کھلاڑی - دی بلائنڈ سائڈ

  3. Pingback: جنسی استحصال عام، آسٹریلیا کی چیمپیئن تیراک کے بھیانک انکشافات - دی بلائنڈ سائڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے