مقبوضہ القدس (یروشلم) کے علاقے شیخ جراح کے فلسطینیوں کو جبری ہجرت پر مجبور کرنے اور دھمکانے کے خلاف جاری جدوجہد میں خواتین بھی پیش پیش ہیں۔
گو کہ اسرائیل کے حملوں کا دائرہ مغربی کنارے سے لے کر غزہ تک پھیلا ہوا ہے، لیکن کشیدگی کا اصل مرکز و محور شیخ جراح ہی ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں فلسطینیوں کے 27 خاندان آباد ہیں، جنہیں یہودی آباد کاروں کی جانب سے جبراً بے دخل کرنے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ اسی کے خلاف فلسطینی مزاحمت کر رہے ہیں اور اسی کشمکش کے دوران رمضان المبارک کے مقدس ترین ایام میں اسرائیلی پولیس مسجد اقصیٰ میں داخل ہوئی اور کئی روز تک علاقہ میدانِ جنگ بنا رہا۔
اس دوران کئی فلسطینیوں کو گرفتار بھی کیا گیا کہ جن میں کئی خواتین بھی شامل تھیں۔ مریم عفیفی انہی خواتین میں سے ایک ہیں جنہیں دو دن تک حراست میں رکھا گیا اور مارا پیٹا بھی گیا۔
اسرائیلی پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کے موقع پر ان کی مسکراتی ہوئی تصویر دنیا بھر میں کافی مشہور ہوئی۔ "بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ میں کیمرے دیکھ کر مسکرا رہی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں میدانِ عمل میں موجود اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے ہنس رہی تھی۔ گو کہ یہ گرفتاری کا وقت تھا لیکن میرا حق تھا اور حق پر موجود شخص ہمیشہ مسکراتا ہے۔
مریم کا کہنا ہے کہ مزاحمت کا بوجھ صرف مرد اور بچوں کے کاندھوں پر نہیں ہے۔ خواتین مزاحمت نہیں کریں گی، اپنے حقوق کا مطالبہ نہیں کریں گی، سرزمین پر اپنی موجودگی کے حق کے لیے جدوجہد نہیں کریں گی تو کون کرے گا؟ یقین جانیں اگر ہم شیخ جراح میں کامیاب نہیں ہوئی تو پورا القدس ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایک آزاد سرزمین پر آزاد شہری کی حیثیت سے رہنا چاہتے ہیں اور یہ سرزمین فلسطین ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ 1948ء میں فلسطین ختم ہو گیا تھا، ہم ثابت کریں گے کہ فلسطین اب بھی موجود ہے۔
مونا کرد ان 27 فلسطینی خاندانوں میں سے ایک کا حصہ ہیں جنہیں شیخ جراح سے نکالنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ صحافت کی تعلیم رکھنے والی مونا کا کہنا ہے کہ تاریخ میں فلسطین کی خواتین ہمیشہ آگے آگے رہی ہیں اور غلامی کے خلاف پوری طاقت سے جدوجہد کی ہے۔ انہیں کئی مرتبہ گرفتار بھی کیا گیا لیکن مشکل حالات، حملوں، حقوق کی خلاف ورزیوں اور جبری ہجرتوں نے انہیں مزاحمت کاربنا دیا ہے۔
مونا نے بتایا کہ ان کی دادی کو حیفا سے نکالا گیا تھا، انہوں نے مجھے مزاحمت اور جدوجہد کا مطلب سمجھایا۔ یہ مزاحمت ہمارے خون میں ہے۔ ہر فلسطینی عورت ایک مدرس ہے اور مزاحمت و جدوجہد کی علامت ہے۔
فلسطین میں جاری حالیہ کشیدگی کے دوران اب تک 212 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں سے تقریباً نصف تعداد خواتین، بچوں اور بزرگوں کی ہے۔
جواب دیں