کیا روسالیا آرتیاگا اقوامِ متحدہ کی پہلی خاتون سربراہ بن سکتی ہیں؟

نیویارک میں واقع اقوامِ متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز میں داخل ہونے کے بعد آپ کی نظریں اقوامِ متحدہ کے تمام سابق سیکریٹری جنرلز کی بڑی اور شاندار تصاویر پر پڑتی ہیں۔ ان9 تصاویر میں بطروس غالی، کوفی عنان اور بان کی مون بھی شامل ہیں اور یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ 1945ء میں قیام کے بعد سے آج تک اقوامِ متحدہ صرف مردوں کی زیرِ قیادت رہی ہے۔

لیکن ہو سکتا ہے کہ اب ان میں ایک خاتون کی تصویر کا اضافہ ہو جائے کیونکہ جنوبی امریکا کے ملک ایکویڈور کی سابق صدر روسالیا آرتیاگا اگلے سیکریٹری جنرل کی دوڑ میں شامل ہیں۔

لیکن کیا ان کی کامیابی کا کوئی امکان بھی موجود ہے؟

بالکل نہیں، کیونکہ یہ بات تقریباً یقینی ہے کہ انتونیو گوتیریس رواں سال ایک مرتبہ پھر یہ عہدہ پا لیں گے۔ گو کہ ان کے دوبارہ انتخاب کے حوالے سے کچھ کہا نہیں گیا لیکن اقوامِ متحدہ کی تاریخ دیکھیں تو گزشتہ 60 سال میں محض ایک بار ایسا ہوا ہے کہ دوبارہ انتخاب کے لیے میدان میں اترنے والے سیکریٹری جنرل کو منتخب نہیں کیا گیا۔

لیکن ایک ماہ قبل اینڈریا وینزون کے ساتھ مل کر کسی خاتون کو منتخب کرانے کی مہم شروع کرنے والی کولمبی کاہن-سیلواڈور کہتی ہیں کہ انتخاب کا عمل مبہم اور غیر جمہوری ہے اور آپ اس حوالے سے رائے بھی نہیں رکھتے۔ یہ دونوں ایسی سرگرمیوں کا تجربہ بھی رکھتے ہیں اور پین یورپین سیاسی تحریک "وولٹ” بھی انہی کی قائم کی ہوئی تھی۔

اپنی اِس مہم "فارورڈ” کے آغاز سے اب تک یہ لندن میں 8,000 حامی اکٹھے کر چکے ہیں اور دو امیدوار پا چکے ہیں ایک آرتیاگا اور دوسری ارجنٹینا کی سفارت کار پاؤلا برتول۔ "فارورڈ” کے پیروکار 71 ممالک سے تعلق رکھتے ہیں جو اس مہم کی حمایت کر رہے ہیں۔

اس مہم کا بنیادی مقصد توجہ دلانا ہے کہ اس اہم عہدے کے لیے انتخابات اب بھی بند دروازوں کے پیچھے ہوتے ہیں۔ وینزون کہتے ہیں کہ "گو کہ ہم 2021ء میں موجود ہیں لیکن ہماری سیاست اب بھی 50 سال پرانی ہیں۔ ہمیں اسے بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔”

اقوام متحدہ کا منشور کہتا ہے کہ سیکریٹری جنرل کی نامزدگی سلامتی کونسل دے گی، جس کے بعد اسے جنرل اسمبلی منتخب کرے گی۔ کیونکہ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین ویٹو  کی طاقت رکھتے ہیں، اس لیے امیدوار کو کامیابی کے لیے لازماً ان کی حمایت  حاصل کرنا ہوگی۔ کئی  ممالک، جن میں چین اور برطانیہ  بھی شامل ہیں، پہلے ہی گوتیریس کی حمایت کر چکے ہیں۔

اس کے علاوہ بھی کئی ایسے ضوابط ہیں جو تحریری صورت میں موجود نہیں۔

مثلاً امیدوار کی لازماً ہر رکن  ریاست کی جانب سے توثیق کی جائے۔ در حقیقت یہ لکھا کہیں نہیں ہے لیکن ہوا ہمیشہ ایسا ہی ہے۔ پھر جغرافیائی طور پر باریوں کا معاملہ بھی ہے، مثلاً افریقہ سے تعلق رکھنے والے سیکریٹری جنرل کے بعد ایشیا کی باری آئے گی۔ پھر سلامتی کونسل کب اور کس طرح ایک امیدوار نامزد کرتی ہے، یہ بھی واضح نہیں۔ اس سال نامزدگیاں مئی اور اکتوبر کے درمیان کسی وقت ہوں گی۔

پانچ سال پہلے انتونیو گوتیریس کے انتخاب کے موقع پر شفافیت  غیر معمولی تھی۔ جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس میں انتخابی عمل کی تفصیلات پیش کی گئیں۔ پہلی بار تمام امیدواروں کو اپنے  کام کے حوالے سے وژن پیش کرنا پڑا،   عوامی سماعتیں ہوئیں اور سوِل سوسائٹی کے اراکین کے ساتھ سوال و جواب کے سیشن بھی۔

کاغذ پر روسالیا آرتیاگا اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی تمام تر شرائط پر پورا اترتی ہیں، باضابطہ بھی اور بے ضابطہ بھی۔ وہ مختصر عرصے کے لیے ایکویڈور کی صدر بھی رہیں، ملک کی نائب صدر اور کابینہ کی  وزیر اور ایک بڑی انجمن کی سیکریٹری جنرل بھی۔ اس کے علاوہ وہ لاطینی امریکا سے تعلق رکھتی ہیں، ایسا خطہ کہ کاہن-سیلواڈور کے مطابق  جس کی باری ہے۔ ارجنٹینا کی سفارت کار پاؤلا برتول کو ان کی نائب رکھتے ہوئے "فارورڈ” نے آرتیاگا کو امیدوار بنایا ہے۔

لیکن کیا ایک بیرونی امیدوار کا امکان بھی ہے؟

ایسا کہا تو نہیں جا سکتا کہ امکان نہیں ہے۔ 34 سالہ اروڑا اکنکشا کو ہی دیکھ لیں جو اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP) کی ملازمہ ہیں جنہوں نے ایک غیر معمولی مہم شروع کی اور خود کو اس عہدے کے لیے نامزد کیا ہے۔ لیکن اقوامِ متحدہ کی ویب سائٹ پر صرف انتونیو گوتیریس کا پروفائل ہی موجود ہے۔

باضابطہ امیدوار بننے کے لیے سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کے صدور کا امیدوار  کا باقاعدہ اعلان کرنا ضروی ہے۔ اب تک ایسا تبھی ہوا ہے جب کسی ریاست نے  تجویز پیش کی ہو۔ ورنہ یہ امیدواریت محض علامتی ہی ہوتی ہے۔

اقوامِ متحدہ میں اصلاحات کے حوالے سے کام کرنے والے ایندریاس بومل کا کہنا ہے کہ "یہ علاماتی اقدامات بہت ضروری ہیں اور اس حوالے سے دلچسپی پیدا کرنے کے لیے  اٹھانے چاہئیں۔”  وہ سالہا سال سے اقوام متحدہ کو زیادہ جمہوری، زیادہ شفاف اور سوِل سوسائٹی کے لیے زیادہ کشادہ بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

‏100 دیگر تنظیموں کے ساتھ ان کے گروپ "ڈیموکریسی وِد آؤٹ بارڈرز” نے حال ہی میں اقوام متحدہ میں اصلاحات کے لیے تین تجاویز پیش کی ہیں جن میں پارلیمانی اسمبلی کا قیام بھی شامل ہے۔

بومل کا کہنا ہے کہ "اقوام متحدہ بلاشبہ ہمارے لیے اہم ترین انجمن ہے۔ یہ تمام رکن ریاستوں کے مفاد میں ہے کہ اسے زیادہ مؤثر اور زیادہ قانونی روپ دیں۔”

‏”فارورڈ” منصوبہ اپنی مہم کو آگے لے جانا چاہتا ہے،  کاہن-سیلواڈور کہتی ہیں کہ "ہمارا ماننا ہے کہ اگر ہم ابھی آواز اٹھائیں گے تو مستقبل میں تبدیلی لانے میں مدد مل سکتی ہے۔”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے