ایک وقت تھا سوات میں عسکریت پسندوں نے خواتین کو گھروں میں رہنے پر مجبور کر دیا تھا اور ان کے باضابطہ تعلیم حاصل کرنے پر بھی پابندی لگا دی تھی۔ لیکن آج اسی سوات میں کئی خواتین ایسی ہیں جو اپنی مہارت اور دلچسپی کے لحاظ سے اپنا کیریئر آگے بڑھا رہی ہیں۔ انہوں نے مقامی پیشے اختیار کی ہیں، خواتین کے حقوق کی علم بردار بنی ہیں اور مختلف این جی اوز میں شمولیت اختیار کی ہے، لیکن ایک خاتون ایسی ہیں جنہوں نے علاقے میں اپنی نوعیت کا پہلا ریستوران کھولا ہے۔
نورہ احساس ایک شاعرہ ہیں اور سوشل میڈیا پر خاصی معروف ہیں، جنہوں نے مینگورہ میں "چائے ساز” کا آغاز کیا ہے۔ کہتی ہیں کہ "اس منصوبے پر قدامت پسندوں کے ردِ عمل کا بخوبی اندازہ تھا، لیکن ریستوران کھولنا میرا جذبہ تھا اور میں نے لوگوں کو دکھایا ہے کہ اس علاقے کی خواتین ہر کام بخوبی کر سکتی ہیں۔ میں دوسری خواتین کو یہ احساس دینا چاہتی ہوں کہ وہ کاروبار کر سکتی ہیں اور باوقار طریقے سے روزگار حاصل کر سکتی ہیں۔ اگر ایک خاتون کاروبار کھولنے کی ہمت کرتی ہے تو وہ مرد کے رحم و کرم پر نہیں رہتی۔ ہر خاتون کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ اس کے اندر ہر کام کرنے کی صلاحیت ہے۔”
انہوں نے بتایا کہ پدر شاہی (patriarchy) معاشرے کی وجہ سے انہیں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور کئی لوگوں نے کہا کہ وہ ریستوران نہیں کھول پائیں گی کیونکہ یہ اُن کے کرنے کا کام نہیں ہے۔ "آج میں نے سب کو دکھا دیا ہے کہ عورت سب کچھ کر سکتی ہے، اگر جرات ہو اور خواتین کاروبار یا ملازمت کرنے کا پورا حق اور صلاحیت رکھتی ہیں۔ جب لوگ مجھے پر تنقید کرتے تو میں دل پر نہیں لیتی تھی بلکہ اس تنقید نے ہی مجھے اس مقام تک پہنچنے کا حوصلہ دیا۔”
نورا احساس نے ریستوران کے لیے چند باورچی حاصل کیے ہیں، بلکہ وہ خود بھی باورچی خانے میں کام کرتی ہیں، مہمان کا خیر مقدم بھی کرتی ہیں اور انہیں کھانا دیتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ "کئی لوگوں نے میرے کام کو سراہا بھی ہیں اور حوصلہ بڑھایا ہے جن میں سوات کی دو ادبی شخصیات ریاض احمد حیران اور شہاب شاہین شامل ہیں۔ سوِل سوسائٹی کے چند افراد نے بھی ریستوران کھولنے میں پر حوصلہ افزائی کی ہے۔
سوات ہوٹل ایسوسی ایشن کے صدر حاجی زاہد خان کہتے ہیں کہ انہیں نوجوانوں کو آگے آتے اور کاروبار کرتا دیکھ کر خوشی ہو رہی ہیں۔ "آج یہ دیکھ کر بہت اچھا لگ رہا ہے کہ ایک نوجوان خاتون میں ایک ریستوران کھولنے کا حوصلہ ہے۔ کاروباری سرگرمیوں میں نوجوانوں کی شمولیت نہ صرف انہیں منفی سرگرمیوں سے بچائے گی بلکہ اچھی آمدنی کا سبب بھی بنے گی۔”
جواب دیں