ترقی پذیر دنیا میں صرف نصف خواتین ہی جسمانی اختیار رکھتی ہیں، اقوامِ متحدہ

دنیا کے 57 ممالک میں تقریباً نصف خواتین ہی ایسی ہیں جو اپنے جسم کے حوالے سے خود مختاری رکھتی ہیں۔ اس کا انکشاف اقوامِ متحدہ کی ایک نئی رپورٹ میں کیا گیا تھا، جو جنس، مانع حمل طریقوں کا استعمال اور صحت کی دیکھ بھال کے حوالے سے ہے۔

‏My Body is My Own نامی یہ تحقیق خواتین پر حملوں، بشمول ریپ، جبری طور پر بانجھ کرنا، کنوار پن کے ٹیسٹ اور عورتوں کا ختنے پر بات کرتی ہے۔

اقوام متحدہ کے جنسی و تولیدی صحت کے ادارے (UNFPA) کی سربراہ نتالیا کانم نے کہا ہے کہ دراصل کروڑ ہا خواتین اور لڑکیاں ایسی ہیں جن کا اپنے جسم پر کوئی اختیار نہیں۔ ان کی زندگی پر اختیار کسی اور کا ہے۔”

یہ فیصلہ کرنے والے شوہر بھی ہو سکتے ہیں، خاندان کے اراکین، معاشرہ بلکہ حکومت بھی۔

کانم نے کہا کہ بنیادی مسائل معاشرتی و سماجی مسائل کی بدولت ہیں، جیسا کہ عورتوں کے لیے جنسی عمل کے حوالے سے ممنوعات (taboos) اور پدر شاہی (patriarchy) کی گہری جڑیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خواتین کے اختیار مرد رشتہ داروں کی گرفت میں ہوتے ہیں۔

کانم نے مزید کہا کہ جب خواتین کو اپنے اختیار سے محروم کیا جاتا ہے تو اس سے عدم مساوات جڑیں پکڑتا ہے اور صنفی بنیادوں پر تشدد کو ہوا ملتی ہے، جو کہ مسئلے کی جڑ ہے۔

خواتین کے جسمانی اختیار کو متاثر کرنے والے جرائم اور حرکات میں "غیرت” کے نام پر قتل، جبری و کم عمری کی شادی، "کنوار پن” کے ٹیسٹ اور عورتوں کا ختنہ شامل ہیں۔ حمل کا جبراً ٹھیرانا یا ضائع کروانا بھی خواتین کے اپنے جسم کے حوالے سے خود فیصلہ کرنے کے اختیار کی خلاف ورزی ہے۔

کئی ممالک میں صنفی مساوات کی آئینی ضمانت حاصل ہونے کے باوجود، رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کی خواتین مردوں کے مقابلے میں اوسطاً 75 فیصد قانون حقوق رکھتی ہیں۔

وبا نے کروڑوں خواتین کے لیے صورت حال مزید بگاڑ دی ہے۔ کانم نے کہا کہ "جو صورت حال پہلے خراب تھی، اب بدترین ہو چکی ہے کیونکہ کووِڈ-19کی وبا سے جنسی تشدد، غیر ارادی حمل ٹھیرنے اور صحت  تک رسائی میں نئی رکاوٹیں اور روزگار اور تعلیم کے مواقع سے محرومی جیسے مسائل بڑھے ہیں۔”

اپریل 2020ء میں UNFPA نے کہا تھا کہ عالمی لاک ڈاؤن سے گھریلو تشدد میں 20 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے، کیونکہ ایسی خواتین کو خود پر ظلم کرنے والوں کے ساتھ گھروں میں رہنا پڑے گا۔

محققین نے یہ بھی پیش گوئی کی تھی کہ اگلی دہائی میں 13 ملین اضافی کم عمری کی شادیاں اور مزید 2 ملین عورتوں کے ختنے ہو سکتے ہیں کیونکہ وبا نے دونوں کے خاتمے کی عالمی کوششوں کو متاثر کیا ہے۔

اب تک کسی ملک نے مکمل صنفی مساوات کو حاصل نہیں کی لیکن جو اس سمت میں گامزن ہیں ان میں سوئیڈن، یوروگوئے، کمبوڈیا، فن لینڈ اور نیدرلینڈز نمایاں ہیں۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا تعلق کسی ثقافت یا مقام سے نہیں ہے، کانم نے کہا کہ حکومتوں کو انسانی حقوق کے معاہدوں کے تحت اپنے وعدے پورے کرنے کے لیے نمایاں کردار ادا کرنا ہوگا، ساتھ ہی سماجی، سیاسی، ادارہ جاتی و معاشی ڈھانچے اس طرح ترتیب دینے ہوں گے کہ ان سے صنفی عدم مساوات نہ پید ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے