پاکستان میں جہاں اب بھی زیادہ تر شادیاں خاندان کی مرضی سے ہوتی ہیں، گلالئی رشتے کروانے کی ذمہ داری لیتی ہیں۔ لیکن ان کے پاس موجود کئی رشتے محض اس لیے نہیں ہو پاتے کہ لڑکے والے اتنا جہیز مانگتے ہیں جو دلہن کے والدین ادا نہیں کر سکتے۔ وہ کہتی ہیں کہ "شادی کے لیے رشتہ پانے کے لیے ایسے لوگ بھی آتے ہیں جنہیں پتہ چل جائے کہ لڑکی کا خاندان غریب ہے اور اتنا جہیز نہیں دے سکتا تو دوبارہ پلٹ کر نہیں آتے۔”
جہیز برصغیر کا ایک قدیم رواج ہے، جس میں دلہن کے والدین نقدی، زیورات اور کپڑوں کی صورت میں دولہا کے خاندان کو جہیز دیتے ہیں۔ گو کہ جہیز کے حوالے سے پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں قوانین بھی موجود ہیں، لیکن ان پر شاید ہی کبھی عمل نظر آتا ہے۔ خواتین کے حقوق کے اداروں کا کہنا ہے کہ اگر سسرال والے جہیز پر خوش نہ ہوں تو اس کی وجہ سے خواتین پر گھریلو تشدد بڑھتا ہے بلکہ ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جس میں ان کی موت واقع ہوئی ہے۔
یہ مسئلہ بہت عام ہے۔ گلالئی کہتی ہیں کہ کئی خاندان صرف جہیز کی وجہ سے اپنی بیٹیوں کی شادیاں نہیں کروا پاتے۔ کبھی کبھار تو ایسا ہوتا ہے کہ جہیز کی ایک طویل فہرست لڑکی کے والدین کو پکڑا دی جاتی ہے کہ جن میں زیورات، فرنیچر، گھریلو استعمال کے لیے بجلی کے آلات اور کبھی کبھی تو نئی موٹر سائیکل یہاں تک کہ گاڑی تک شامل ہوتی ہے۔
جہیز کے یہ بڑے مطالبات غریب خاندانوں کی کمر توڑ دیتے ہیں جو ویسے ہی بمشکل سفید پوشی کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ معاشی دباؤ اور جہیز سے بچنے کی کوشش میں وہ ایسے فیصلے کرنے پر بھی مجبور ہو جاتے ہیں جو درحقیقت دل سے نہیں کرنا چاہتے، مثلاً لڑکی کی کم عمری میں شادی وغیرہ۔
محمد علی ایک این جی او کے سربراہ ہیں جو خیبر پختونخوا میں غریب خاندانوں کی مدد کرتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جہیز ایک پرانی اور غیر ضروری رسم ہے جو خاندان میں مقابلے کی بے جا دوڑ کا سبب بن چکی ہے۔ غریب گھرانوں کی لڑکیاں اس سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔ ماضی میں جہیز سادہ ہوتے تھے اور اس میں زیادہ تر باورچی خانے کا سامان یا پھر کپڑے وغیرہ ہوتے تھے لیکن اب تو جہیز کا دائرہ کہیں زیادہ وسیع ہو چکا ہے۔
ایک ایسے معاشرے میں جہاں محض اس وجہ سے لڑکیوں کی شادیاں نہ ہو پائیں، وہاں خاندان کو بھاری بھرکم قرضے لے کر جہیز دینے کے مطالبات پورے کرنے پڑتے ہیں۔ جس کی ادائیگی بعد میں نت نئے مسائل پیدا کرتی ہے۔ زاہدہ نامی ایک خاتون نے بتایا کہ میرے والد اور بھائیوں نے میری شادی پر جہیز کا انتظام کرنے کے لیے مختلف دوستوں اور رشتہ داروں سے قرضہ لیا تھا۔ انہوں نے وہ سب کچھ دیا جو میرے سسرالیوں کو درکار تھا لیکن یہ سب بھی ناکافی ثابت ہوا۔ زاہدہ بتاتی ہیں کہ میں سالہا سال تک اپنے سسرالیوں کے ہاتھوں نفسیاتی دباؤ کا شکار رہیں، جو سمجھتے ہیں کہ کافی جہیز نہیں دیا گیا۔ میری شادی کو 15 سال ہو چکے ہیں لیکن سسرالی اب بھی مجھے جہیز کے طعنے دیتے ہیں۔ یہ بہت ہی بدترین رسم و رواج ہے۔
پاکستانی معاشرے میں جہیز ہر طبقے میں موجود ہے اور اسے دلہن اور اس کے خاندان کی عزت سمجھا جاتا ہے۔ اگر جہیز سسرالیوں کی توقعات کے مطابق نہ ہو تو لڑکی کو تذلیل کا نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ معاملہ جسمانی تشدد تک جا پہنچتا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ جہیز کے مطالبات عموماً شادی طے کرتے ہوئے کیے جاتے ہیں لیکن کچھ مرد اور ان کے خاندان والے شادی کے دوران مطالبات کرتے رہتے ہیں۔ جن خواتین کے خاندان ان مطالبات کو پورا نہیں کر پاتیں وہ کسمپرسی کی زندگی گزارتی ہیں، مار پیٹ کا نشانہ بنتی ہیں، یہاں تک کہ انہیں اچھی خوراک اور علاج معالجے کی کمی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اور چند واقعات میں تو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق جہیز کی وجہ سے خواتین کی ہلاکت کی سب سے زیادہ شرح پاکستان میں ہے کہ جہاں ہر سال ایک لاکھ خواتین پر ایسے 2 ہزار کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ جہیز کی وجہ سے خواتین پر تشدد اور اموات کے سب سے زیادہ واقعات پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں پیش آتے ہیں۔
جہیز صدیوں پرانا رواج ہے، جس میں دلہن کے خاندان والے نقد یا زیورات کی صورت میں اپنی بیٹی کو جہیز دیتے ہیں تاکہ وہ نئے گھر میں جا کر مالی طور پر بھی خود مختار رہے کیونکہ برصغیر میں خواتین کو وراثت میں حصہ نہیں ملتا تھا۔ لیکن آج بھی یہ رواج ویسے ہی موجود ہے اور جہیز کی صورتیں بھی بدل چکی ہیں۔
اس رواج کے خاتمے کی ایک صورت خواتین کو وراثت میں حق دینا ہے، جو انہیں اسلام بھی دیتا ہے۔ پاکستان میں دہائیوں سے ایسے قوانین بنائے جا رہے ہیں اور حال ہی میں وفاقی حکومت نے 1976ء کے ایک ایکٹ میں ترمیم کی تجویز بھی پیش کی ہے جس کے مطابق 50 گرام سونے سے زیادہ مالیت کا جہیز نہیں دیا جا سکتا اور اس کا استعمال بھی دلہن کے ملبوسات اور چادروں وغیرہ کے لیے ہوگا۔ اس ترمیم میں خلاف ورزی پر جرمانے اور بھاری جہیز کے کسی مطالبے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آگاہ کرنے پر دلہن کے والدین کی حوصلہ افزائی کی شقیں شامل ہیں۔ لیکن محض قوانین ہی جہیز جیسی لعنت کو محدود اور بالآخر ختم کرنے کے لیے کافی نہیں۔ اس کے لیے معاشرتی رویّوں میں تبدیلی لانے کے لیے عوام میں شعور اجاگر کرنا بہت ضروری ہے۔
بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی جہیز کے خلاف سخت قوانین موجود ہیں لیکن جرمانے اور قید کی سزائیں ہونے کے باوجود وہاں یہ جہیز اب بھی برقرار ہے۔
فروری میں گیلپ پاکستان کے ایک سروے کے مطابق تمام تر مسائل کے باوجود عوام کی اکثریت جہیز کی حمایت کرتے ہیں۔ سروے میں شامل تقریباً 53 فیصد لوگوں نے کہا کہ وہ جہیز دینے اور لینے کے حامی ہیں جبکہ 38 فیصد نے اس کے خلاف رائے دی۔
محمد علی کہتے ہیں کہ یہاں رسوم و رواج قانون سے بھی زیادہ طاقتور ہیں۔ لوگ اب بھی قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہیں اور حکومت بھی قانون کے نفاذ میں خاص دلچسپی نہیں رکھتی۔
Pingback: خواتین صرف اپنی زندگی میں ہی وراثت کا دعویٰ کر سکتی ہیں، فیصلہ - دی بلائنڈ سائڈ