بھارت کی ‘ناخوش و ناشاد شادیاں’ ایک مصور کی نظر سے

بھارت بلکہ پورے برصغیر میں شادی کی رسومات اور تقریبات ہفتہ بھر چلتی ہیں لیکن ان میں سے بیشتر شادیوں کی تمام تر چکاچوند، رونقوں اور چہل پہل کے پسِ پردہ ایک تاریک پہلو ہے۔ بے جوڑ شادیاں، زن بیزار تصورات و روایات اور بدسلوکی پر مبنی تعلق، ان تمام موضوعات کو ممبئی کی ایک نامعلوم آرٹسٹ "SmishDesigns” نے اپنی پہلی تصویری نمائش میں پیش کیا ہے۔

"پتی، پتنی اور woke” نامی اس نمائش کا مقصد ہے یہ سمجھنا کہ شوہر کیسا ہوتا ہے اور اِس دور میں بیوی کی حیثیت سے خواتین جاگ رہی ہیں۔ یہ نام دراصل 1978ء کی فلم "پتی، پتنی اور وہ” کی نقل پر دیا گیا ہے۔

بہرحال، آرٹسٹ کہتی ہیں کہ یہ نمائش بات کرتی ہے شادی اور بحیثیتِ ادارہ پسِ پردہ کئی پہلوؤں کی اور اس میں خواتین کس طرح نقصان اٹھاتی ہیں۔ "میں نے ایسے کئی پہلوؤں پر بات کی ہے جن کا عورت کو شادی کے بعد سامنا کرنا پڑتا ہے، اور ہماری اقدار کس کس طرح خواتین اور ان کے حقوق کا گلا گھونٹتی ہیں۔”

بھارت میں لاکھوں خواتین محض شادی کی وجہ سے اپنی ملازمت چھوڑنے یا تعلیم کا سلسلہ ترک کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ جبکہ ایسے خاندان بھی ہیں جو "فخر” کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بہو کو پڑھنے یا ملازمت کرنے کی "اجازت” دے رکھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ نمائش ایک طرح سے ‘شادی کے بندھن کے تقدس’ جیسی اصلاحات پر حملہ ہے، جسے ملک کی عدلیہ تک خواتین کو خاموش کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ یہ نمائش ان خواتین کی حوصلہ افزائی کرتی ہے جو اپنی انفرادی و جداگانہ حیثیت کو سمجھنا شروع ہو گئی ہیں اور اپنی آواز بلند کر رہی ہیں۔

نمائش میں بھارت میں کی دلہنوں کی اذیت ناک زندگی کے کئی پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے اور اس کی ہولناکی کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً ایک تصویر میں ایک خاتون دلہن کا روایتی جوڑے پہنے ہوئی دکھائی دیتی ہے لیکن اس کی ایک آنکھ سوجی ہوئی ہے، چہرے پر زخموں کے نشانات ہیں اور وہ شیشے پر لپ اسٹک سے لکھ رہی ہے "Utopia” یعنی خیالی جنّت۔

گزشتہ 10 سالوں میں ملک میں شادی شدہ خواتین کی جانب سے گھریلو تشدد کی سب سے زیادہ شکایات اب کووِڈ-19 کی وبا کے دوران سامنے آ رہی ہیں۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان حالات میں گھروں میں اپنے ظالم شوہروں کے ساتھ پھنسی خواتین کو کن مشکلات کا سامنا ہے۔

ایک اور فن پارے میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک ڈبے میں ٹی وی، مائیکرو ویو اوون اور پریشر کُکر کے ساتھ ایک عورت بھی موجود ہے اور لکھا ہے "جہیز کے ساتھ دلہن! بھارت میں خاص سیل۔”

بھارت بلکہ پورے برصغیر میں دلہن دولہا اور اس کے خاندان کو "تحفے” یا پیسے دیتی ہے، اور یہ سب زیادہ تر انتہائی دباؤ میں یا غربت کے ہوتے ہوئے کرنا پڑتا ہے۔ اس مسئلے کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ فروری میں بھارت کے شہر احمد آباد میں ایک خاتون نے اپنے شوہر اور سسرالیوں کی جانب سے جہیز کے مطالبات اور جسمانی تشدد کی وجہ سے خودکشی کر لی۔ یہ کئی واقعات میں محض ایک ہے۔

ان فن پاروں میں Smish نے اپنی سیاسی رائے بھی کھلے عام پیش کی ہے مثلاً بھارت میں اس وقت جاری مظاہروں کی دو بڑی تحریک کی حمایت نظر آتی ہے، ایک فن پارہ بدنام ‘شہریت ترمیمی بل’ (CAA) کے حوالے سے ہے جبکہ ایک میں کاشت کاروں کی تحریک کا ذکر نظر اتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی شناخت چھپانے کا فیصلہ کیا ہے۔ کہتی ہیں "موجودہ ماحول میں ہر تخلیق کار پریشان ہے، چاہے وہ مصور ہو یا مزاحیہ فنکار یا پھر فلم ساز۔”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے